اتکرش آنند
ہمارے ملک میں وقف نظام نے تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کی مذہبی ، تعلیمی اور سماجی بہبود کے اداروں کی تائید و حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ موجودہ قانون کے تحت وقف ایک خیراتی بندوبست کرنے والا ادارہ ہے جس میں جائیداد و املاک بشمول اراضیات مذہبی یا فلاحی مقاصد کیلئے عطیہ / وقف کی جاتی ہیں اور جس کی ملکیت بندوں کی نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے اللہ کے سپرد ہوجاتی ہے ۔ اس لئے موقوف جائیدادوں کو اللہ کی ملکیت کہا جاتا ہے اور موقوفہ جائیدادوں سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے ، اسے مساجد ، دینی مدارس ، یتیم خانوں اور دوسرے فلاحی اقدامات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ملک کے مختلف وقف بورڈس موقوفہ جائیدادوں کی آمدنی جہاں وقف بورڈس کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے استعمال کرتے ہیں ، وہیں مساجد و مدارس ، درگاہوں ، خانقاہوں اور قبرستانوں کے انتظامات کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ مسلم نعشوں کی تجہیز و تکفین ، مریضوں کے علاج و معالجہ ، ان کی اسپتالوں کو منتقلی (ایمبولنس سرویس) ، نعشوں کی منتقلی ، بیواؤں کی مدد وغیرہ کیلئے بھی وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی خرچ کرتے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ وقف ایکٹ 1995 اور 2013 میں کی گئی اس کی ترمیم نے موقوفہ جائیدادوں کا نظم چلانے کیلئے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا اور ریاستی وقف بورڈس قائم کئے جو موقوفہ جائیدادوں کی نگرانی کے ذمہ دار بھی ہیں ۔ تاہم مرکزی حکومت کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وقف بورڈس میں بڑے پیمانہ پر بد انتظامی پائی جاتی ہے۔ دھوکہ دہی کے ذریعہ موقوفہ اراضیات پر دعوے کئے جاتے ہیں اور پھر قانونی تنازعات پیدا ہوتے ہیں، اس تعلق سے انتظامیہ میں وضاحت اور جوابدہی کا احساس پیدا کرنے کی خاطر وقف ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت تھی اور اس لئے وقف ترمیمی ایکٹ منظور کیا گیا ۔ اکثر لوگوں میں یہ جاننے کیلئے بڑی دلچسپی پائی جاتی ہے کہ آخر مسلمان اپنی جائیدادوں کا عطیہ کیوں دیتے ہیں۔ اس سے ان کا کیا فائدہ ہوتا ہے ؟ اور حکومت جو نئی ترامیم کر رہی ہے ، ان سے کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی ؟ اس ضمن میں آپ کو بتادیں کہ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ اب ہر کوئی اپنی جائیداد وقف نہیں کرسکے گا یا عطیہ نہیں دے سکے گا اور ہاں اپنی جائیدایں وقف کرنے / عطیہ دینے والوں کیلئے اہلیت کے سخت معیار ہوں گے۔ اب تک جو قانون لاگو ہے ، اس کے تحت کوئی بھی شحص بلا لحاظ مذہب و ملت وقف مقاصد کیلئے اپنی جائیدادیں عطیہ کرسکتا ہے لیکن نئی ترامیم اس حق کو صرف ان لوگوں تک محدود کرتی ہے جو کم از کم 5 سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہوں۔ ترمیم شدہ بل کے مطابق جائیداد دینے والے شخص کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام کا پیروکار ہے ۔ حکومت کے مطابق یہ اہتمام من مانی یا دھوکہ دہی سے وقف دینے والے کو روکنے کیلئے ضروری ہے لیکن ناقدین کے خیال میں یہ شق ایک غیر صروری مذہبی آزمائش عائد کرتی ہے اور وقف میں حصہ لینے ڈالنے کے خواہاں افراد پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ترمیم شدہ بل وقف املاک کی شناخت اور انتظام پر حکومتی نگرانی کو بھی بڑھاتا ہے ، فی الحال وقف سروے ، وقف سروے کمشنروں کے ذریعہ کیا جاتا ہے جو موقوفہ اراضی کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں، ترمیم شدہ قانون میں ضلع کلکٹر کو موقوفہ جائیدادوں کا سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ اگر وقف کا دعویٰ سرکاری اراضیات سے متعلق ہے تو ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ کلکٹر کے عہدہ سے اوپر کا ایک آفیسر اس دعویٰ کی تحقیقات کرے گا اور ریاستی حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا ۔ بل کے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے کی شرط ہے ۔ اس بل کے تحت سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی بورڈس میں کم از کم دو غیر مسلم ارکان کا ہونا ضروری ہے ، ساتھ ہی وقف بورڈ کے چیف اگزیکیٹیو آفیسر کیلئے مسلمان ہونے کی شرط کو بھی ختم کردیا گیا ہے یعنی کسی بھی غیر مسلم کو وقف بورڈ کا چیف اگزیکیٹیو آفیسر مقرر کیا جاسکتا ہے ۔ اس بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ وقف انتظامیہ کو مزید جامع اور شفاف بنانے کیلئے یہ قدم اٹھا گیا ہے لیکن مسلم مذہبی تنظیموں نے اس شق پر سخت تنقید کرتے ہوئے پر زور انداز میں کہا کہ وقف اسلامی قانون کے تحت ایک مذہبی وقف ہے اور اس کے انتظام میں غیر مسلموں کو شامل نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس ترمیم میں وقف املاک کو وقف کرنے سے پہلے خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک نئی شق بھی شامل کی گئی ہے ۔ بل میں واضح طور پر کہا گیا کہ خاندانی وقف بنانے سے پہلے وقف کرنے والے شخص کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تمام قانونی ورثاء بالخصوص خواتین کو جائیداد میں ان کا صحیح حصہ مل گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بل اس کو بھی لازمی بتاتا ہے کہ تمام متولیان اندرون 6 ماہ مرکزی حکومت کے پورٹل پر جائیداد کی تفصیلات درج کریں۔ اس کے علاوہ وقف ادارے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپئے سے زیادہ ہے، اب انہیں ریاست کے مقرر کردہ اڈیٹر سے لازمی طور پر آڈٹ کرانا ہوگا ۔ بہر حال آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ مرکزی حکومت نے اپوزیشن کے تمام اعتراضات اور احتجاج کے باوجود لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 کو منظور کرلیا ہے۔ لوک سبھا میں بل کی منظوری سے پہلے 12 گھنٹوں تک گرما گرم مباحث ہوئے حالانکہ پارلیمنٹ کی بزنس اڈوائزری کمیٹی نے بل پر بحث کیلئے 8 گھنٹے مختص کئے تھے اور پھر درمیانی شب دو بجے یہ بل 232 کے مقابلہ 288 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بل کی تائید و حمایت کے معاملہ میں بی جے پی کے اتحادیوں ، تلگو دیشم ، جنتا دل (یو) اور ایل جے پی آگے آگے رہے حالانکہ ان جماعتوں کو اپنے سیکولر ہونے کا بڑا زعم ہے۔ اب آندھراپردیش اور بہار میں مسلمان تلگو دیشم اور جنتا دل (یو) کے خلاف ہوگئے ہیں ۔ بہار میں نتیش کمار کی اپنی پارٹی کے مسلم قائدین ناراض ہوکر پارٹی کو خیر باد کہنے لگے ہیں ۔ وہاں انہیں رنگ بدلنے والے سیاسی گرگٹ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف مرکزی وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو اس بل کو تاریخی قرار دیتے ہیں جبکہ مسلمان اس بل کو بی جے پی حکومت کی مسلم دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ رجیجو کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز کو قبول کیا ہے اور اایک اہم ترمیم پیش کی ہے جس سے امید ملے گی ، ان کا دعویٰ ہے کہ ایک صبح طلوع ہونے والی ہے ۔ اسی وجہ سے نئے قانون کو یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ ایفشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کا نام دیا گیا ہے ۔ کرن رجیجو کے اس دعویٰ میں کتنی سچائی ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا ج ا سکتا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کو لیکر مسلمانوں کی برہمی کے باوجود وہ (کرن رجیجو) کہتے ہیں کہ مسلم برادری ان ترامیم کا خیر مقدم کر رہی ہے اور جو مخالفت کررہے ہیں انہیں وہ ان کے گھر دعوت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ کتنی بڑی تعداد میں مسلمان ان کے گھر پہنچ کر اس بل کی حمایت کر رہے ہیں، اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھ کر شائد مخالفین کی سوچ و فکر میں تبدیلی آئے ۔
رجیجو یہ بھی دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے شیعہ سنی پسماندہ مسلمانوں ، خواتین اور غیر مسلم ماہرین کو وقف بورڈس میں شامل کرنے کی اجازت دی ہے ۔ بورڈس میں دو غیر مسلم اور دو خواتین کو شامل کیا جاسکتا ہے ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب تک وقف بورڈ میں خواتین کہاں تھیں؟ کرن رجیجو کے مطابق مودی حکومت کانگریس کی غلطیوں کو ٹھیک کر رہی ہے ۔ مرکزی وزیر یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت کسی مذہبی سرگرمی میں مداخلت نہیں کر رہی ہے ، یہ صرف موقوفہ جائیدادوں کے انتظام و انصرام کا معاملہ ہے۔ حکومت کی نیت اور ارادے کس قدر برے ہیں اس کا اندازہ خود کرن رجیجو کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے پارلیمنٹ میں دیا۔ انہوں نے کہا ’’مارچ 2014 میں اس وقت کی یوپی اے حکومت نے دہلی کی 123 قیمتی جائیدادوں کو وقف بورڈ کے حوالے کردیا ۔ رجیجو نے یہاں تک کہا کہ اگر مودی حکومت یہ وقت ترمیمی بل پیش نہیں کرتی تو جس عمارت (پارلیمنٹ) میں ہم بیٹھے ہیں اس پر بھی موقوفہ ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا تھا ۔ کرن رجیجو کا مذکورہ بیان ہی حکومت کی نیت خراب ہونے کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ مارچ 2014 میں عام انتخابات کے انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے سے قبل منموہن سنگھ زیر اور قیادت یو پی اے حکومت نے جن 123 جائیدادوں کو جو حقیقت میں موقوفہ تھیں۔ وقف بورڈ کے حوالے کیا، وہ جائیدادیں انڈین اکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی کے کناٹ پیالس ، متھرا روڈ ، اشوک روڈ پارلیمنٹ ہاؤس علاقہ لودھی روڈ ، پنڈارا روڈ ، مان سنگھ روڈ ، دریا گنج، قرولی باغ ، صدر بازار اور جنگ پورہ میں واقع ہیں ۔ اب ہوسکتا ہے کہ مودی حکومت اس نئے قانون کے تحت ان قیمتی موقوفہ جائیدادوں کو ہڑپ لے گی۔