بی جے پی کے باعث ، ٹی آر ایس اب مسلمانوں سے دور ہونے پر مجبور!

,

   

مئیر کے انتخاب کے لیے مجلس کا سہارا لینا مہنگا پڑے گا ۔ مسلمان کو ڈپٹی مئیر بنانے کا فیصلہ بھی موہوم
ٹی آر ایس ، مجلس دوستی کے نام پر بی جے پی ہندو ووٹ بینک مضبوط بنانے کوشاں
بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کا کمزور مظاہرہ کے سی آر کے لیے لمحہ فکر
حیدرآباد :۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے کمزور مظاہرہ اور بی جے پی کے غیر متوقع 48 نشستوں پر کامیابی پر سیاسی بحث چھڑ گئی ہے ۔ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ آیا اب چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ تلنگانہ میں بی جے پی کو ہندوتوا کارڈ کھیلنے سے روکنے کے لیے خود کو سیکولر کردار سے دور رکھتے ہوئے ہندوتوا کا مظاہرہ کریں گے ۔ مندروں کی تعمیر ، پوجا پاٹ اور دیگر ایسے کام انجام دینے شروع کریں گے جس سے وہ ریاست کے ہندو ووٹ کو بی جے پی کی جھولی میں جانے سے روک سکیں ۔ چیف منسٹر کے سی آر کے لیے سب سے پہلی آزمائش جی ایچ ایم سی کے لیے مئیر کا انتخاب ہے ۔ مئیر کے انتخاب کے لیے انہیں دیگر پارٹیوں کی تائید کی ضرورت ہوگی ۔ بلاشبہ ٹی آر ایس کے پاس مئیر کے انتخاب کے لیے رائے دہی میں حصہ لینے والے ارکان کی تعداد زیادہ ہے ۔ اس کے قائم مقام ارکان کی طاقت کے باوجود ٹی آر ایس کو دیگر پارٹیوں کی مدد لینی پڑے گی ۔ ایسے میں مجلس کا سہارا لینا ٹی آر ایس کے لیے مہنگا پڑے گا کیوں کہ اگر مجلس سے سہارا لیا جاتا ہے تو اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا ۔ بی جے پی منصوبہ کے مطابق وہ ٹی آر ایس اور مجلس کی دوستی کے نام پر اپنا ہندوتوا ووٹ بینک مضبوط بنانے کی کوشش کرے گی ۔ بلدی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی نے ٹی آر ایس کے سیکولر کردار کو داؤ پر لگادیا ہے ۔ ٹی آر ایس کے کمزور مظاہرہ کے سی آر کے لیے لمحہ فکر بھی ہے ۔

تجزیہ کے مطابق ٹی آر ایس کے حصہ میں کم نشستوں کی اصل وجہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے کئی ایسے فیصلے ہیں جو ان کی پارٹی کے لیے سیاسی نقصان پہونچا رہے ہیں اور بی جے پی کو قدم جمانے کی راہ ہموار کررہے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سکریٹریٹ کا انہدام ، مساجد کی شہادت ، مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی عدم فراہمی ، حیدرآباد کے سیلاب سے نمٹنے میں ناکامی بھی بتائی جارہی ہے ۔ ٹی آر ایس 55 نشستوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی پارٹی کا موقف حاصل کرنے کے باوجود مئیر کے انتخاب کے لیے بے بس ہے ۔ 150 حلقوں کے منجملہ 149 وارڈس کے نتائج کا اعلان ہوا ہے ۔ لوک سبھا ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی جو شہر میں اپنا ووٹ رکھتے ہیں وہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے بہ اعتبار عہدہ رکھنے والے ارکان ہیں ۔ اس کے علاوہ ایم ایل سیز اور راجیہ سبھا ارکان کو جو شہر میں اپنا ووٹ رکھتے ہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مئیر کے انتخاب کے لیے جی ایچ ایم سی کو ترجیح دیتے ہوئے ووٹ دیں ۔ ذرائع نے اس طرح کے بہ اعتبار عہدہ ارکان کی تعداد 49 بتائی ہے ۔ لیکن اس معاملہ کی واضح تصویر مئیر کے انتخاب کے لیے اعلامیہ کی اجرائی کے بعد ہی سامنے آئے گی ۔ ان بہ اعتبار عہدہ ارکان کی تعداد 49 کے منجملہ 31 ارکان ٹی آر ایس کے ہیں ۔ پارٹی سطح پر بہ اعتبار عہدہ ارکان کی تعداد میں مجلس کے 10 ارکان ، کانگریس ایک ، اور بی جے پی کے 3 ارکان ہیں تاہم ان بہ اعتبار عہدہ ارکان کو 6 ماہ قبل مقامی بلدی انتخاب میں ووٹ نہیں دینا چاہئے تھا لیکن جی ایچ ایم سی کے بعض بہ اعتبار عہدہ ارکان نے مضافاتی بلدیات میں ووٹ دیا تھا وہ اب جی ایچ ایم سی مئیر انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل نہیں ہیں ۔ محکمہ بلدی نظم و نسق کی جانب سے اس طرح بہ اعتبار عہدہ ارکان کے موقف سے متعلق تفصیلات جی ایچ ایم سی کو روانہ کرنے ہوں گے ۔ ٹی آر ایس کو تقریبا 10 ارکان کی کمی ہے اس کے لیے اسے مجلس کی تائید حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ مئیر کے عہدہ پر کامیاب ہونے کے لیے ٹی آر ایس کے لیے یہ واحد راستہ ہے تاہم کہا جارہا ہے کہ ٹی آر ایس اب مجلس سے ہاتھ نہیں ملائے گی اور نہ ہی ڈپٹی مئیر کے لیے مسلمان کو نامزد کرے گی ۔ کیوں کہ مجلس سے ہاتھ ملانے سے بی جے پی کو ہندوتوا کارڈ کھیلنے کا موقع مل جائے گا ۔ جیسا کہ بی جے پی نے جی ایچ ایم سی انتخابات کے دوران اپنی انتخابی مہم میں حکمراں پارٹی ٹی آر ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے مجلس سے خفیہ اتحاد کیا ہے ۔ اگر مجلس مئیر کے انتخاب سے خود کو دور رکھتی ہے تو اس سے ٹی آر ایس کے کاز میں مدد ملے گی ۔ جی ایچ ایم سی کے نو منتخب کارپوریٹرس کو حلف لینے کیلئے فروری تک انتظار کرنا پڑیگا کیوں کہ موجودہ کارپوریٹرس کی میعاد 10 فروری کو ختم ہورہی ہے ۔۔