محمد محسن نے قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، محمد علی شبیر کا ردعمل
حیدرآباد۔/20 اپریل، ( سیاست نیوز) کانگریس کے سینئر قائد اور سابق فلور لیڈر محمد علی شبیر نے اڈیشہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی پر مسلم آئی اے ایس عہدیدار محمد محسن کو معطل کرنے پر شدید احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی اور مرکزی حکومت کے دباؤ میں یہ کارروائی کی ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ کانگریس پارٹی اس مسئلہ پر قانون اور دستور کے ماہرین سے رائے حاصل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مکتوب روانہ کرے گی تاکہ آئی اے ایس عہدیدار کی معطلی فوری برخاست کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جن قواعد اور ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے محمد محسن کو معطل کیا ہے، ان کا اہم شخصیتوں کی گاڑیوں کی تلاشی سے کوئی تعلق نہیں۔ الیکشن کمیشن نے جن قواعد کی خلاف ورزی کا بہانہ بناتے ہوئے مسلم عہدیدار کے خلاف کارروائی کی وہ دراصل اہم شخصیتوں بالخصوص اسپیشل پروٹیکشن گروپ کی سیکورٹی رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کی نقل و حرکت سے متعلق ہے۔ آئی اے ایس عہدیدار نے الیکشن کمیشن کے قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم کی گاڑیوں کے قافلے کو نہیں روکا اور نہ ہی ہیلی کاپٹر کی اُڑان میں کوئی رکاوٹ پیدا کی۔ الیکشن مبصر کی حیثیت سے محمد محسن کو گاڑیوں کی تلاشی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دباؤ کے تحت الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی کی۔ انہوں نے بتایا کہ کئی سینئر آئی اے ایس عہدیداروں نے الیکشن کمیشن کی کارروائی کو غیر ضروری اور محمد محسن پر الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ الیکشن کمیشن نے مبصرین کو جو ہدایات اور رہنمایانہ خطوط جاری کئے تھے ان میں سے ایک کی بھی محمد محسن نے خلاف ورزی نہیں کی اور وزیر اعظم کی گاڑی بشمول ہیلی کاپٹر کی تلاشی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے 2014 اور 2019 کی دو ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے معطل کیا لیکن ان دونوں ہدایات میں تلاشی کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ حکومت کے دباؤ کے تحت الیکشن کمیشن کام کررہا ہے اور ایک مسلم عہدیدار کو جان بوجھ کر اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ انہوں نے اپنے فرائض کی دیانتداری کے ساتھ تکمیل کی۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک میں وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر سے ایک مشتبہ بیاگ منتقل کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ وزیر اعظم کیا قانون اور دستور سے بالاتر ہیں کہ ان پر انتخابی ضابطہ اخلاق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
