جی او 9 کی برقراری کی مساعی، نامور وکلاء کی خدمات، سپریم کورٹ کے موقف پر متضاد قانونی موقف
حیدرآباد۔ 12 اکتوبر (سیاست نیوز) سپریم کورٹ میں کل 13 اکتوبر کو تلنگانہ حکومت کی جانب سے بی سی تحفظات سے متعلق جی او نمبر 9 کی برقراری کے لئے اسپیشل لیو پٹیشن دائر کی جائے گی جس میں تلنگانہ ہائی کورٹ کے حکم التواء کو چیالنج کیا جائے گا۔ حکومت نے تحفظات سے متعلق بلز کے گورنر اور صدر جمہوریہ کے پاس زیر التواء ہونے کے پیش نظر جی او کی اجرائی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات کی فراہمی کا فیصلہ کیا ہے۔ جی او کی اجرائی کو ہائی کورٹ میں چیالنج کیا گیا اور چیف جسٹس اپریش کمار سنگھ کی زیر قیادت بنچ نے جی او پر حکم التواء جاری کردیا جس کے نتیجہ میں مجالس مقامی کے انتخابات تعطل کا شکار ہوگئے۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی نے ریاستی وزراء اور ماہرین قانون سے مشاورت کے بعد ہائی کورٹ کے احکامات کو سپریم کورٹ میں چیالنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق رکن راجیہ سبھا ابھیشیک منوسنگھوی اور سپریم کورٹ کے دیگر نامور وکلاء کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ صدر پردیش کانگریس مہیش کمار گوڑ، ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرامارکا اور دیگر وزراء سے چیف منسٹر ریونت ریڈی ربط میں ہیں اور انہوں نے ماہرین قانون کی رائے سے واقف کرایا ہے۔ تلنگانہ حکومت 42 فیصد بی سی تحفظات کے بغیر انتخابات کے انعقاد کے لئے تیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں جی او نمبر 9 کی برقراری کے لئے ٹھوس پیروی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں مزید کسی تاخیر کے بغیر پیر کے دن ہی اسپیشل لیو پٹیشن دائر کی جائے گی اور ہائی کورٹ کے احکامات پر حکم التواء کی اپیل کی جائے گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں طبقاتی سروے کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے دلیل پیش کی جائے گی کہ حکومت نے مختلف طبقات کی حقیقی آبادی کا پتہ چلانے کے بعد ہی پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پنچایت راج قانون میں ترمیم کرتے ہوئے 50 فیصد کی حد کو ختم کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اسمبلی میں منظورہ بلز صدر جمہوریہ کے پاس زیر التواء ہیں۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے بلز کے زیر التواء ہونے کے باوجود جی او کی اجرائی پر اعتراض جتایا۔ حکومت نے 29 ستمبر کو جی او ایم ایس 9 جاری کیا جس کے بعد اسٹیٹ الیکشن کمیشن نے مجالس مقامی چناؤ کا شیڈول جاری کیا تھا۔ ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد بی سی طبقات کی جانب سے حکومت پر دباؤ بڑھ چکا ہے کہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر حکم التواء حاصل کیا جائے۔ سپریم کورٹ سے تلنگانہ حکومت کو کوئی راحت ملے گی یا نہیں اس بارے میں ماہرین قانون کی رائے مختلف ہے۔ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ گورنر اور صدر جمہوریہ کے پاس زیر التواء مسئلہ پر فیصلہ کرنے کا حکومت کو اختیار نہیں تاوقتیکہ گورنر اور صدر جمہوریہ قطعی فیصلہ نہ کرنے حکومت کو سپریم کورٹ سے راحت کی امید ہے اور طبقاتی سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر حکم التواء کی درخواست کی جائے گی۔ قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول کی اجرائی کے بعد عدالت کو انتخابی عمل میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز ہوچکی ہیں اور حکومت نے بی سی طبقہ سے تعلق رکھنے والے وزراء پونم پربھاکر اور وی سری ہری کو نئی دہلی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ سماعت کے موقع پر موجود رہیں۔ صدر پردیش کانگریس مہیش کمار گوڑ بھی نئی دہلی روانہ ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے بی سی تحفظات کے متبادل امکانات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ہائی کورٹ سے راحت نہ ملنے پر پارٹی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم میں پسماندہ طبقات کو 42 فیصد نمائندگی دے کر انتخابی وعدے کی تکمیل میں سنجیدگی کا اظہار کیا جائے گا۔ 1