بی سی تحفظات میں مسلمانوں کی حصہ داری پر وضاحت ناگزیر

   

سماجی انصاف کے تقاضہ کو پورا کرنا ضروری، کانگریس حکومت کی خاموشی بدنیتی کی علامت، ایم ایل سی کویتا کا الزام
حیدرآباد۔ یکم اگست (شاہنواز بیگ کی رپورٹ) ریاست تلنگانہ میں پسماندہ طبقات کی آواز کو کئی دہائیوں سے دبایا جا رہا ہے۔ آج وقت آچکا ہے کہ پسماندہ طبقات کو مساوی ترقی کے مواقع اور آئینی حقوق فراہم کئے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار ایم ایل سی کویتا نے کیا، انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات کی فراہمی کے لئے ساری ریاست تلنگانہ میں صدائے احتجاج بلند کیا گیا ہے۔ ہم نے نہ صرف مختلف اضلاع میں گول میز کانفرنسیں منعقد کیں بلکہ بی سی کاز کے تعلق سے عوام میں شعور بیدار کیا۔ ہماری عوامی بیداری مہم کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج ہماری اس بے لوث اور بے باک مہم کو زبردست عوامی تائید حاصل ہو چکی ہے۔ہم نے بی سی کاز کے لئے حکومتوں کو جھنجھوڑنے کا کام کیا۔ ہم نے پسماندہ طبقات کی آواز کو ایوانوں تک پہنچایا۔ ہماری مسلسل اور متواتر کوششوں کا نتیجہ ہے کہ تلنگانہ قانون ساز اسمبلی اور کونسل میں بی سی بلس کی منظوری عمل میں آئی۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ کانگریس حکومت درحقیقت پسماندہ طبقات کی ترقی کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی نے مبہم پالیسی اپنائی ہے۔ ہمارے دباؤ میں حکومت نے بی سی بل تو منظور کئے ہیں تاہم او بی سی مسلمانوں کی حصہ داری پر آج تک وضاحت نہیں کی ہے۔ کانگریس کی پالیسی اور معاندانہ رویہ سے یہ بات پھر ایک مرتبہ ثابت ہوچکی ہے کہ کانگریس کو عوامی فلاح سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی وہ صرف اور صرف سیاسی مفادات کی تکمیل اور سیاسی فوائد کے حصول کے لئے کام کرتی ہے۔ اسے پسماندہ طبقات کی پسماندگی کو دور کرنے سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ ایک طرف کانگریس پارٹی 42 فیصد تحفظات کی فراہمی کی بات کر رہی ہے تو دوسری طرف اس میں مسلمانوں کو کتنا حصہ مختص کیا جائے گا،اس پر معنی خیزخاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ کانگریس حکومت کی یہ خاموشی اس کی بدنیتی کی علامت ہے۔ہم ریاستی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف 42 فیصد تحفظات کے تعلق سے وضاحت کرے بلکہ تحفظات میں مسلم او بی سی کی حصہ داری کا بھی تذکرہ کرے۔ پسماندہ طبقات کی ترقی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لئے بحیثیت مجموعی 56 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں۔ کانگریس کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں پسماندہ طبقات کی آبادی 46 فیصد ہے اور مسلم او بی سی آبادی 10 فیصد ہے۔لہذا 56 فیصد تحفظات کی فراہمی کے ذریعہ سماجی انصاف کے تقاضے کو پورا کیا جائے۔