صدقہ ‘یقینا بلا کوٹالتی ہے ‘ عمرکو بڑھاتی ہے ‘رمضان بہترین موقع ‘ اپنے ہاتھ کشادہ کریں
نرمل ۔23مارچ (سیدجلیل ازہر) ماہ رمضان المبارک کے اس مقدس ماہ میںہرعمر کے لوگ پابندی سے بلکہ کثرت سے عبادات اورنمازوںکی پابندی کررہے ہیں جو باعث مسرت ہے ‘ لیکن ہمیں صدقہ کی طاقت پربھی خصوصی توجہ کرنی چاہئے ۔ اس لیے کہ صدقہ کی فضیلت اور برکت کے تعلق سے ہرکوئی واقف ہے کہ یہ مصیبت کو روکتا ہے ‘صدقہ عمراور مال میںاضافہ کا سببب ‘صدقہ کامیابی اور رزق کا سبب ہے ۔ صدقہ علاج بھی ہے ‘دوا بھی ہے ‘شفا بھی ہے ۔شائد اس جانب توجہ دلانے کے لیے میںنے چند برس قبل اپنے مطالعہ میں صدقہ کے واقعہ پر ایک واقعہ کا ذکر کیاتھاجوپھر ایک بار قلمبند کرنا ضروری سمجھتاہوںکہ اگر تحریر کسی کے دل میںاتر جائے تو کسی غریب ‘یتیم ‘ مسکین کو عیدکی خوشیاں نصیب ہوجائیں۔ واقعہ یوں ہے کہ مصر کا ایک بڑا تاجر جس کی عمرکوئی پچاس برس تھی ‘ ایک دن سینہ میں شدید تکلیف محسوس ہونے پرقاہرہ کے ایک بڑے دواخانہ میںعلاج کیلئے رجوع ہوا تو ڈاکٹروں نے معذرت خواہی کرتے ہوئے اس تاجرکو فوری یورپ جانے کامشورہ دیا‘تاجرجب یورپ پہنچا تو وہاں کے ڈاکٹرس نے بائی پاس سرجری توکردی لیکن یہ کہا کہ تم چند دن کے مہمان ہو ‘وہ تاجرواپس آگیا اوراپنے باقی دن گن گن کر گزارنے لگا ۔ ایک دن وہ ایک دکان سے گوشت خریدررہاتھا اس نے دیکھا کہ ایک عورت قصائی کے پھینکے ہوئے چربی کے تکڑوں کو جمع کررہی تھی ‘اس شخص نے عورت سے پوچھا کیا کررہی ہو‘ عورت نے جواب دیا ‘صاحب گھرمیں بچے گوشت کھانے کے لیے ضد کررہے تھے ‘ میرا شوہرمرچکا ہے اورکمانے کا کوئی ذریعہ نہیںہے ‘اس لیے میںنے بچوں کی ضد کے لیے یہ قدم اٹھایا ‘ کیونکہ اس چربی کے ساتھ تھوڑا بہت گوشت آجاتا ہے ‘ جس کو صاف کرکے پکالیتی ہوں‘ اس تاجرکی آنکھ میں آنسو آگئے ‘اس نے سوچا کہ میری اتنی دولت کا کیافائدہ ‘میں تو چند دن کا مہمان ہوں‘ میری دولت اس غریب کے کام آجائے تو اس سے اچھاکیا ہوگا ‘ اس نے اسی وقت کافی سارا گوشت خریدکراس عورت کو دے دیا اور قصائی سے کہا کہ اس عوران کو پہچان لو‘ اورجب بھی آئے اسے گوشت دے دینا اورپیسہ مجھ سے لے لینا ‘ اس واقعہ کے بعد وہ شخص اپنے شب وروز کے معاملات میںمصروف ہوگیا‘کچھ دن بعداس کو دل کی تکلیف کا احساس نہ ہوا تواس نے دوبارہ یورپ جاکر اپنا معائنہ کروایا‘ ڈاکٹروں نے بعد معائنہ حیرانی سے پوچھا کہ تمہاری بیماری جڑسے ختم ہوگئی ہے ‘ آخر ایسا کیاکیا آپ نے‘ تاجرکو وہ گوشت والی بیوہ یادآگئی اوراس نے مسکراکرکہا یہ علاج وہاں سے ہوا ہے جس پر تم یقین نہیںرکھتے ‘بے شک صدقہ ہربلا کوٹالتا ہے ‘صدقہ سے عمربھی بڑھتی ہے ‘کئی خودار لوگ ‘یتیم بچے مسکین عیدکے کپڑوں کے لیے ترس رہے ہیں‘مگر ہم ایسے معاشرہ کو کیا نام دیں جہاں پرفلموں‘ ڈراموں میںموجود درد وتکلیف پر تو رونا آجاتا ہے مگر اصلی زندگی میںکسی کے دکھ درد کو ڈرامہ نہ سمجھیں بلکہ ان کی مدد کے لیے آگے آئیں‘ افلاس کی بستی میںذرا جاکر تودیکھو‘وہاں بچے تو ہوتے ہیںمگربچپن نہیں ہوتا‘ عیدالفطر کا چاندنظرآنے ایک ہفتہ رہ گیا ہے ‘ بے بس معصوم بچے کی یہ تصویرمیں بہت کچھ چھپا ہے ۔