پی چدمبرم
بجٹ 2021-22 حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کو پاٹنے کا ایک بہترین موقع تھا اور یہ ایسی دفعات میں ترمیم کا بھی بہترین موقع تھا جسے حکومت کی پالیسیوں، اقدامات اور بے حسی نے غلط ثابت کیا تھا۔ مثال کے طور پر سماج کے غریب طبقات، کسانوں، نقل مکانی کرنے والے ورکروں، ایم ایس ایم ای شعبہ، اوسط طبقہ اور بیروزگار حکومت کی پالیسیوں کو غلطیوں سے پُر سمجھتے ہیں اور یہ تمام ایسے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہیں ان کی قسمت پر چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس بجٹ سے کوئی توقعات نہیں تھیں اس لئے مجھے مایوسی بھی نہیں ہوئی لیکن ہندوستان کے کروڑہا لوگوں میں یہ احساس پایا گیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔
اگر اس بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے امیروں اور غریبوں کے درمیان تفاوت کو بڑھایا ہے۔ تامل گرامر میں قائدہ ہے کہ قوت بصارت سے محروم کسی بھی شخص کے ہاتھ میں جس طرح ایک چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اسی طرح مقام، شئے اور موقع بھی اسی چراغ کی طرح کوئی کام کے نہیں رہتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایکٹرس اور ان کے ایکشن (اقدامات) مقام و موقع کے تناظر میں جانچے جانے چاہئے۔ یہ وہ تناظر ہے جو فیصلہ کی میرٹ کا تعین کرتا ہے۔
وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے بجٹ 2021-22 غیر معمولی حالات و صورتحال میں پیش کیا۔ خاص طور پر انہوں نے یہ بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا جبکہ دو برسوں سے نمو کی شرح مسلسل روبہ زوال ہے (8 فیصد سے 4 فیصد) ہوگئی سال 2018-19 اور 2019-20 میں۔ دوسری طرف ایک سال کا معاشی انحطاط یکم اپریل 2021 سے شروع ہو رہا ہے۔ ہر کسی کی زندگی میں موجودہ حالات بہت بڑی رکاوٹ ہے ایسی رکاوٹ جس سے لوگوں کی زندگیوں میں ہلچل پیدا ہوگی بالخصوص غریبوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی جن کی ہمارے ہر گاؤں ہر پنچایت ٹاون اور شہر میں اوسطاً آبادی 30 فیصد ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں اور حالات سے موثر انداز یں نہ نمٹنے کے باعث کروڑہا ہندوستانی خطہ غربت کے نیچے چلے گئے اور ان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا بعنی وہ قرض تلے دب گئے ہیں۔ صرف غریب ہی شدید متاثر نہیں ہوئے بلکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگ روزگار اور سامان زندگی سے بھی محروم ہوئے۔ آپ کی اطلاع کے لئے بتادوں کہ لیبر فورس سے ہٹنے والے 64.7 ملین افراد میں 22.6 فیصد خواتین ہیں 28 ملین ایسے لوگ ہیں جو روزگار کی تلاش میں ہیں جبکہ کم از کم 35 فیصد
msmes
مستقل طور پر بند ہوگئیں۔ مذکورہ اقتصادی حقائق یا پہلوؤں کے ساتھ ساتھ نامساعد معاشی حالات کے لئے دیگر دو عناصر بھی ذمہ دار ہیں۔ ان میں سب سے پہلا چین کی جانب سے ہندوستان کے علاقہ پر غیر قانونی قبضہ کرنا ہے اور چین کی اس درندازی و ناجائز قبضہ سے ہندوستان کی قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہوگیا۔ دوسرے یہ کہ موجودہ خراب معاشی حالات میں سدھار لانے کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری درکار ہے خاص طور پر ملک میں شعبہ صحت کی بنیادی سہولتوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے بہت زیادہ سرمایہ مشغول کرنے کی ضرورت ہے۔
میں ملک کی خراب معاشی حالت کے لئے کون ذمہ دار ہیں اور اگر اسے بہتر بنانا ہوتو کیا کرنا چاہئے اس ضمن میں 31 جنوری 2021 کی روزنامہ سیاست اور انڈین ایکسپریس کی اشاعت میں اپنے خیالات قلمبند کرچکا ہوں) بجٹ کا جائزہ لینے اور وزیر فینانس کی تقریر کے مطالعہ کے بعد میں نے جو اسکور کارڈ تیار کیا ہے وہ اس طرح ہے۔
غیر گفت و شنید : 0/2
فہرست خواہشات 1/10
بجٹ کے تفصیلی جائزہ سے صرف ایک ایسا نکتہ نظر میں آیا جسے کامیاب کہا جاسکتا ہے اوروہ ہے حکومت کے سرمایہ مصارف میں اضافہ صرف اس معاملہ میں حکومت PASS ہوئی۔ باقی تمام محاذوں پر اسے ناکام قرار دیا جاسکتا ہے۔ (اس معاملہ میں بہت گہرائی اور گیرائی سے جانچ کی جانی چاہئے) اس مرتبہ کے بجٹ نے ہمارے ملک کی مسطح افواج کو بھی ناکام بنا دیا۔ وزیر فینانس نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے ایک گھنٹہ 45 منٹ تک خطاب کیا لیکن اس دوران انہوں نے ایک مرتبہ بھی لفظ
DEFENCE
کا استعمال نہیں کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مودی حکومت نے سال 2021-22 میں شعبہ دفاع کے لئے 347,088 کروڑ روپے مختص کئے جبکہ جاریہ سال کے لئے دفاع کا
RE، 343822
کروڑ روپے ہے اس کا مطلب صرف 3266 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے اس سے افراط زر کی راہ ہموار ہوگی مختص رقم آئندہ سال کے لئے بہت کم ہے۔
شعبہ صحت کے معاملہ میں وزیر فینانس نے بڑی چالاکی کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے ایوان میں بڑے فخر سے اعلان کیا کہ اس شعبہ پر حکومت کی خصوصی توجہ ہے اور اس نے اب کی بار شعبہ صحت کا بجٹ 94,452 کروڑ روپے سے بڑھاکر 223,846 کروڑ روپے کردیا ہے لیکن ان کے اعلان کے چند گھنٹوں میں ہی ان کے پیش کردہ اعداد و شمار کی حقیقت سامنے آگئی۔ بجٹ بہ یک نظر (کے صفحہ 10) پر واضح طور پر لکھا گیا ہیکہ 2020-21 میں
RE،
82445 کروڑ روپے ہے اور سال 2021-22 کے لئے تخمینہ بجٹ یعنی
BE،
74,602 کروڑ روپے ہے، ان اعداد و شمار کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ مختص بجٹ میں اضافہ کی بجائے کمی کی گئی۔ اس میں ٹیکہ اندازی پروگرام کے تحت ایک وقت کی قیمت، پینے کے پانی و صاف صفائی سے متعلق محکمہ کے لئے مختص رقم کے ساتھ ساتھ ریاستوں میں پانی، صاف صفائی اور صحت جیسے شعبوں کے لئے مختص رقم بھی شامل ہے۔
وزیر فینانس نے اپنی بجٹ تقریر میں خط غربت کے نیچے زندگی گذارنے والے 20.30 فیصد خاندانوں یا
msmes
اور ان کے بیروزگار ہوئے ورکروں کے بارے میں ہمدردانہ الفاظ ادا کرنے سے بھی گریز کیا۔ انہوں نے بیمار شعبوں جیسے مواصلات، توانائی، تعمیرات، کانکنی، شہری ہوابازی، سفر و سیاحت مہمان نوازی کے احیا کے بارے میں کسی پیاکیج کا اعلان بھی نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے جی ایس ٹی کی شرحوں میں کسی قسم کی کمی کی۔ اس کے برعکس وزیر فینانس نے کئی اشیاء یا مصنوعات پر محاصل عائد کردیئے جس میں پٹرول اور ڈیزل بھی شامل ہے جس پر زرعی محاصل کے نام پر 2.5 اور 4 روپے عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس سے ریاستوں کے مالیات پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر فینانس نے اپنے بجٹ کے ذریعہ عوام کو ناکام کردیا)۔ وزیر فینانس کی تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر فینانس معیشت کو مستحم بنانے کی خاطر 10,52,318 کروڑ روپے ادھار حاصل کریں گی لیکن اضافہ سرمایہ مصارف صرف 27,078 کروڑ روپے ہوں گے۔ وزیر فینانس نے اپنے خطاب میں پرزور انداز میں یہی کہا کہ ہم نے خرچ کیا، ہم نے خرچ کیا، ہم نے خرچ کیا جبکہ مالی خسارہ 9.5 فیصد رہا سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے محاصل اور غیر محاصل ریونیو جمع نہیں کیا اور نہ ہی وہ ریونیو سے متعلق آمدنی پر قابو پاسکی۔ ایسے میں بجٹ میں کئحی خلیج پائی جاتی ہے اور اسے پاٹنے کے لئے قرض حاصل کرنے کے سواء اور کوئی چارہ کار نہیں۔