رویش کمار
بے روزگاری 45 سال میں سب سے اونچی شرح پر ہے۔ اس کی تصدیق وقفہ وقفہ سے جاری کی جانے والی لیبر سروے رپورٹ نے 31 مئی کو کی ہے۔ سال 2017ء سے جون 2018ء تک بے روزگاری تمام سطحوں پر بڑھتی رہی۔ الیکشن کے سبب حکومت نے اسے جاری نہیں کیا۔ مختلف نوعیت کی تکرار و بحث نے اسے مشکوک بنا دیا ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی کسوٹی درست نہیں ہے۔ جب یہ رپورٹ آئی تو کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا لیکن رپورٹ کو عوام تک پہنچنے بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر بطور احتجاج نیشنل اسٹاٹسٹیکل کمیشن کے دو ارکان مستعفی ہوگئے۔ پھر بھی حکومت اپنے موقف پر اٹل رہی۔ اس رپورٹ کو تشکیل حکومت کے بعد جاری کیا گیا۔ چنانچہ بے روزگاری کی شرح 45 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
الیکشن 2019ء کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے بے روزگاری کے مسئلہ کو ختم کردیا۔ اب اس مسئلہ کا کوئی سیاسی اعتبار نہیں۔ خود بے روزگار عملاً آگے آئے اور کہا کہ بے روزگاری کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ قوم پرستی مسئلہ ہے۔ لہٰذا، اب رپورٹ میں یہ انکشاف کہ بے روزگاری اپنی سب سے اونچی سطح پر ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نہ حکومت کو اور نا ہی بے روزگاروں کو۔ کوئی بھی حساس حکومت یقینا ان اعداد و شمار کے تعلق سے فکرمند ہوتی، لیکن وہ اس دباؤ میں نہیں آئے گی کہ بے روزگاری کا سوال اس کیلئے کوئی سیاسی خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے سابقہ انتخابات میں بھی بے روزگاری کے باوجود جیت حاصل کی ہے، لیکن اِس مرتبہ جب بے روزگاری ریکارڈ سطح پر ہے، ایسا کہا جارہا ہے کہ اس سے سسٹم پر دباؤ پڑے گا اور برسراقتدار پارٹی بی جے پی مشکل میں پڑسکتی ہے۔ لیکن بے روزگار افراد نے اپنی بے روزگاری کے مسئلہ کو تبدیل کردیا اور بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔اس اعتبار سے بی جے پی کی کامیابی کئی طرح سے سیاسی طور پر برتر ہے۔ بے روزگاروں میں اعتماد پیدا کرنا اور اسے برقرار رکھنا معمولی چیز نہیں ہے۔ بی جے پی کو اس کا کریڈٹ ملنا چاہئے۔ اگر کوئی آپ کے خلاف ہوسکتے ہیں تو وہ آپ کے حامی بھی بن سکتے ہیں۔ چنانچہ بی جے پی اور اس کی قیادت کو وزیراعظم مودی کی پوشیدہ طاقت کو سمجھنا چاہئے۔
کانگریس نے مانا کہ بے روزگاری کا مسئلہ اسے سیاسی کامیابی دلا سکتا ہے۔ راہول گاندھی نے ایک سال میں 4 لاکھ سنٹروں میں خالی جائیدادوں کو پُر کرنے کا وعدہ کیا، بے روزگاروں نے انھیں مسترد کردیا۔ بے روزگاروں کو بھی کریڈٹ دیا جانا چاہئے کہ انھوں نے قوم پرستی کی تائید کی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ کسی دن کوئی اپنے جابس کو داؤ پر لگا سکتا ہے، بے روزگاروں نے اپنا مستقبل داؤ پر لگایا ہے۔ پھر بھی بے روزگاروں کو کسانوں سے سیکھنا چاہئے۔ بزنس مین کو بھی سیکھنا چاہئے کہ 60 سالہ تاجرین کیلئے 3,000 کے پنشن کا انتظام کیا گیا ہے۔ کسانوں نے بھی قوم پرستی کی تائید کی لیکن اپنے مسئلہ سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ان کی تحریک نے حکومت پر آخر تک دباؤ برقرار رکھا۔ اس کا نتیجہ ثمرآور رہا۔ مودی حکومت کے پہلے فیصلے میں تمام کسانوں کو سالانہ 6,000 کا پی ایم اعزازیہ حاصل ہوا۔ 60 سالہ کسانوں کو ماہانہ 3,000 کا پنشن ملا۔ بے روزگاروں کو رپورٹس ملی کہ بے روزگاری 45 سال کی سب سے اونچی شرح پر ہے، جس کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ دہلی کے جرنلسٹوں کو بے روزگاروں نے کھلے عام بتایا کہ بے روزگاری کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ملک کی سکیورٹی مسئلہ ہے۔ لہٰذا، بی جے پی اور وزیراعظم مودی نے اُن کے روزگار کے تعلق سے کوئی ٹھوس وعدے نہیں کئے۔ بلکہ بے روزگاری کے بارے میں کوئی تقریر نہیں کی۔ میں نہیں سمجھتا کہ نوجوانوں کو کسانوں اور تاجرین کی طرح کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
معیشت اس حکومت کے سامنے چیلنج بن چکی ہے۔ نوجوانوں کیلئے حکومت کو ان چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا۔ فی الحال بحران کا دور ہے۔ معیشت میں خشکی کا مرحلہ بھی آئے گا۔ نوجوان افراد کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں حکومت نے اُن کیلئے بھی بعض اسکیمات کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ جب میں ایک ’جاب سیریز‘ کررہا تھا اور بار بار توقف پر میں نے لکھا کہ مختلف جنگیں لڑنا اور ہر آزمائش کو جیتنا ممکن نہیں ہے۔ میں (مصنف) نے تمام امتحانات کے نوجوانوں سے کہا تھا کہ سب مل کر جدوجہد کریں۔ کسی حل کیلئے اس طرح جدوجہد کی جائے کہ ہر کسی کو کچھ فائدہ ہو۔ پھر بھی اسٹوڈنٹس مختلف امتحانات سے پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ اب جبکہ جاب سیریز ختم ہوچکی، اس کے باوجود مسیج آرہے ہیں۔ مسیج کوئی حل نہیں۔ مسئلہ درست ہے لیکن طلب پر فکرمندی نہیں ہورہی ہے۔ لیکن میرا (مصنف) اس معاملے میں بھی ماننا ہے کہ حکومت اب اگزامنیشن کمیشنوں کی اصلاح کرے گی۔ اگر تمام دعوے داروں کو بہ یک وقت جدوجہد پیش آرہی ہو تو معاملہ تیزی سے نمٹنے کا امکان رہتا ہے۔ نوجوانوں کو اپنی خودغرضی سے اوپر اٹھنا ہوگا جیسا کہ وہ قوم پرستی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کو ضرور دیانتدارانہ امتحان کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ یہ مطالبہ ایسی صورت میں بھی کرنا ہوگا کہ جبکہ آپ راست طور پر متاثر نہیں ہورہے ہو۔
میں نے جاب سیریز اس لئے روک دی کیونکہ بنیادی سوال یکساں ہے۔ ایک دو دن نہیں، میں نے یہ سیریز دیڑھ سال تک چلائی۔ میں نے یہ باتیں میرے پچھلے کئی آرٹیکلس میں نہیں لکھے۔ یہ مطالبہ ہونا ضروری ہے کہ ملک میں امتحانات کا دیانتدارانہ نظام ہونا چاہئے۔ تمام امتحانات کے نوجوانوں کو مل کر حکومت سے درخواست کرنا چاہئے کہ انھیں دیانتدارانہ اگزامنیشن سسٹم فراہم کیا جائے۔
[email protected]