محمد مصطفی علی سروری
16؍ مارچ 2020 پیر کا دن تھا۔ اتر پردیش کے شہر میروت میں ایک مسلم خاندان کے ساتھ عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ اتوار کے دن گھر والے رات کا کھانا کھانے کے بعد جب سونے چلے گئے تو اگلے دن صبح سورج طلوع ہونے کے بعد بھی ان لوگوں کی نیند سے بیداری نہیں ہوئی اور جب بہت دیر بعد گھر کے ایک فرد کی آنکھ کھلی تو وہ یہ دیکھ کر تعجب میں پڑگیا کہ صبح کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود گھر والے سب سوئے پڑے ہیں۔ خیر سے آواز دے کر جگانے پر گھر والے یکے بعد دیگرے نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے سروزنی ہونے کی شکایت کی اور یہ سن کر ان کی پریشانی بڑھ گئی گھر کے سبھی لوگ ہی سر کے وزنی ہونے کی شکایت کر رہے تھے۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو گھر کا باہر کا دروازہ اندر سے ہی بند تھا اور گھر کے صدر خاندان کنجی لے کر گھر کے اندر کا ایک کمرہ کھولا تو ان کا سر چکرا گیا کیوں کہ جس کمرے کو باہر سے قفل تھا اس کمرے میں ان کی لڑکی بند تھی جو اب کمرے کے اندر نہیں تھی۔
میروت کے قریب کے گائوں میں رہنے والے اس مسلم خاندان کے ساتھ کیا پیش آیا اور بند کمرے میں رہنے والی لڑکی کیسے گھر سے غائب ہوگئی ۔ قارئین ان سب سوالات کے جوابات 19؍ اکتوبر 2020 کو برکھا دت کے آن لائن چیانل سے بات کرتے ہوئے میروت کے مسلم گھرانے سے غائب ہوجانے والی مسلم لڑکی کیمرہ پر آکر کیا کہتی ہے آپ بھی پڑھ لیجیے۔
میرا نام امرین ملک ہے۔ میری عمر 22 سال ہے۔ میں اتر پردیش کے کھاڈولی گائوں کی رہنے والی ہوں جو کہ میروت سے قریب ہے۔ میری شادی میرے گھر والوں نے 30 ؍ مارچ کو مقرر کردی تھی لیکن مجھے ایک دوسرے نوجوان سے پیار ہوگیا تھا۔ اور میرے گھر والے میرے پیار سے خوش نہیں تھے۔ میرے کہنے کے باوجود ان لوگوں نے میرا نکاح ایک دوسرے نوجوان سے طئے کردیا تھا جس کو میں پسند نہیں کرتی تھی۔ اب میرے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجھے ایک کمرے میں بند کر کے روز مارا جاتا تھا۔ مجھ پر کڑی نگرانی رکھی گئی تھی۔ ان سب کے باوجود مجھے ایک دن موقع ملا تو میں نے اپنے گھر والوں کے کھانے میں نیند کی گولیاں ملادی اور یہ 15؍ مارچ 2020 یعنی اتوار کی رات تھی۔ گولیاں نیند کی تھیں اس کے اثر سے سب لوگ گہری نیند میں چلے گئے۔ مجھے جو بھی کرنا تھا تو وہ جلدی کرنا تھا۔ ورنہ میری شادی کی تاریخ قریب آرہی تھی،اس لیے میں نے جب دیکھا کہ سب لوگ سوگئے تو پھر میں نے اپنے گھر کی 9 فیٹ اونچی دیوار پر چڑھ گئی کیونکہ گھر کے سب دروازے اندر سے بھی بند تھے جس پر تالے لگے ہوئے تھے۔ میرے لیے یہی راستہ تھا کہ یا تو میں دیوار پھاند کر باہر نکلوں یا پھر تالے کی چابی تلاش کروں لیکن چابی کی تلاش میں وقت لگ جاتا اور کوئی نیند سے بیدار ہوجائے تو میرے لیے خطرات تھے۔ میں نے اس کے بجائے دیوار کو پھاند نے کا فیصلہ لیا اور پھر میں کسی طرح 9 فیٹ اونچی دیوار چڑھ کر دوسری طرف کود گئی جہاں وہ نوجوان میرا انتظار کر رہا تھا جس سے میں محبت کرتی ہوں اور شادی کرنا چاہتی ہوں۔ پھر ہم دونوں بھاگ کر دہلی پہنچ گئے اور کسی طرح شادی کرنا چاہتے تھے لیکن دہلی جاکر پتہ لگا کہ کرونا جس کے بارے میں ہمارے گائوں میں کوئی خبر نہیں وہ تو دہلی میں بہت چرچا میں ہے اور اس کو لے کر سرکار نے لاک ڈائون لگادیا تھا۔ امرین ملک کے مطابق دہلی میں اگلے ساڑھے تین مہینوں تک وہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ہاں قیام کرتی رہی۔ قارئین اس سارے قصے میں اصل بات ابھی تک سامنے نہیں آئی کہ آخر وہ کون نوجوان تھا جس سے امرین کو پیار ہوگیا تھا اور وہ کیا وجہ تھی کہ امرین کے گھر والے اس کی شادی اس کی پسند کے بجائے اپنی پسند سے کروانے پر مصر تھے۔ میڈیا کے مختلف گوشوں میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹس سے پتہ چلا کہ سال 2012 میں جب امرین کی عمر ابھی 14 برس تھی اسے ایک لڑکے سے پیار ہوگیاتھا۔ کون تھا یہ لڑکا وہ بھی جان لیجئے کہ یہ لڑکا امرین کے گھر کے بالکل سامنے واقع میڈیکل شاپ پر کام کرتا تھا۔ گھر کے سامنے کی میڈیکل شاپ پر امرین دوائی لینے جاتی تھی یا کسی اور کام سے وہ نہیں معلوم لیکن وقت گذرنے کے ساتھ امرین اس میڈیکل شاپ میں کام کرنے والے لڑکے سے دوبدو اور پھر فون پر بات کرنے لگی اور وقت گذرنے کے ساتھ دونوں کی بات چیت محبت میں بدل گئی اور پھر دونوں نے طئے کرلیا کہ وہ شادی کرلیں گے۔
لیکن امرین کے گھر والے اس شادی کے لیے بالکل تیار نہیں ہوئے بلکہ ان لوگوں نے اپنی لڑکی کی اس بات پر اس کو خوب ڈانٹا بلکہ مار پیٹ بھی کی اور لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی بھی لگادی۔ اب امرین کو گھر سے باہر بھی جانا ہے تو اس کے ساتھ اس کا بھائی بھی جاتا تھا اور سب سے اہم امرین کے گھر والوں کے لیے سب سے بڑی قابل اعتراض بات یہ نہیں تھی کہ امرین جس لڑکے کو چاہتی تھی وہ ان کے گھر کے سامنے کی میڈیکل شاپ پر کام کرتا تھا۔ اصل اعتراض تو امرین کے گھر والوں کو اس بات پر تھا کہ امرین جس لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی اس کا نام موہت تھا اور وہ ایک ہندو تھا۔ امرین کے اس باغیانہ تیور کو دیکھ کر اس کے گھر والوں نے اس کی شادی ایک مسلم نوجوان سے طئے کروادی اور 30؍ مارچ کو نکاح کی تقریب بھی مقرر کردی۔ شادی کو طئے ہوتا ہوا دیکھ کر امرین نے طئے کرلیا کہ وہ گھر چھوڑ کر بھاگ جائے گی۔ امرین کے عاشق موہت نے امرین کو گھر سے بھاگنے کے لیے طریقہ بھی بتلایا اور میڈیکل شاپ سے نیند کی گولیاں بھی کسی طرح اس تک پہنچادیں۔ اب امرین نے اپنے ہی گھر والوں کے کھانے میں نیند کی گولیاں ملاکر انہیں کھلادیا اور جیسے ہی سب لوگ سونے چلے گئے خود دیوار پھاند کر اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ کر دہلی چلی گئی اور یہاں تک کہ آریہ سماج مندر میں شادی کرنے تیار ہوگئی تھی۔ پھر ایک وکیل نے ان دونوں کو Special Marriage ایکٹ کے تحت شادی کرنے کی صلاح دی۔ یوں امرین نے جولائی 2020میں موہت کے ساتھ شادی کرلی اور یہ دونوں اپنے گھر والوں کے ڈر سے گائوں واپس نہیں جارہے ہیں اور دہلی میں ہی رہ رہے ہیں۔ موہت میڈیکل شاپ کا کام کرنا چاہتا ہے اور امرین ایک سلائی سنٹر چلاکر موہت کی مدد کرنا چاہتی ہے۔
قارئین لوجہاد کا موضوع ایک مرتبہ پھر سے سرخیوں میں ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے اور دیگر زاویوں سے الگ الگ افراد اس کا الگ الگ تجزیہ کر رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا کے پلیٹ فارم پر امرین کے متعلق جس طرح سے غیر مسلم رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور مسلمان اپنے غصہ کا اور ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں ان سب کو بھی نوٹ کیا جانا چاہیے۔
لیکن یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ مسلمان لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر غیر مسلم نوجوان سے شادی کرلیتی ہے تو مسلمان غصہ ہوجاتے ہیں اور بالکل اسی طرح غیر مسلم لڑکی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف مسلمان سے شادی کرتی ہے تو ان کا رد عمل بھی غیر متوقع نہیں رہتا ہے۔ جب ہندو مسلم شادیاں نفرت بڑھاتی ہیں تو ملک کے ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے سہی ان کو روکنا چاہیے۔
حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔ مختلف انجمنیں، افراد اور گروپ جنہیں شدت پسند کہا جاتا ہے اپنے انداز میں اقدامات اور سفارشات کر رہے ہیں۔ کیا اس سارے پس منظر میں عام مسلمان کے لیے کوئی کام ایسا ہے جس پر اس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے؟
قارئین ذرا غور کیجئے گا کہ لڑکی ہو یا لڑکا ہر مسلمان کو بنیادی طور پر اپنے بچوں کی تربیت کے اسلامی فریضہ کو پورا کرنے کی سمت توجہ دینا ہوگا کیونکہ ہم نے اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر تو بنانا ضروری سمجھا لیکن بحیثیت مسلمان اپنے بچوں کو دین اسلام کی تعلیم اور تربیت دینا بھول گئے اور اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ دنیا میں تو رسوائی مقدر بن رہی ہے اگر ہم توبہ نہیں کریں گے اور اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے ایسے ہی راہ فرار اختیار کرتے رہیں گے تو خدا نہ کرے روزِ محشر کے بارے میں سونچ کر ہی پریشانی ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو اپنی اولاد کی تربیت کے اہم اور بنیادی فریضہ کو پورا کرنے، توجہ دینے اور ہر طرح سے دین اسلام کی تعلیم و تربیت کو یقینی بنانے والا بنادے۔ آمین ۔ یارب العالمین۔
غیرت زدہ تو ڈوب گیا ایک بوند میں
بے غیرتوں کو کوئی سمندر نہیں ملا
[email protected]