تاب تو لا نہیں سکے گا میری سچائی کی

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
میں بنت ہوا ہوں ۔ اللہ نے مجھے لڑکی بناکر پیدا کیا ۔ اس میں میری کوئی بھی مرضی شامل ہوئی نہ ہی میں نے خواہش کی تھی ۔ اللہ نے مجھے لڑکی بناکر دنیا میں روانہ فرمایا تاکہ میں امت محمدیہ میں اضافہ کا باعث بنوں ۔ بتاؤ میرا کیا قصور ہے ۔ میں پیدا ہوئی اپنے فطری حقوق سے لیس ہوکر ۔ یہ حقوق مجھ کو اللہ نے سرفراز کئے ۔ اور تعلیم کا حق دیا اور صحت مند ماحول میں رہنے کا حق دیا ۔ میں پڑھ سکتی ہوں ۔ میں نے بی ۔اے کیا ‘ ایم ۔اے کیا ‘ پی ایچ۔ ڈی کیا ۔ میں علاقہ کی چیف منسٹر بن سکتی ہوں ۔ میں بڑی ہوتی گئی اور پڑھی لکھی قابل ہوتی گئی ۔ فخر خاندان ‘ فخروطن بنی ۔ میں شائد چاند سلطانہ بن سکتی تھی ۔ جھانسی کی رانی بن کر زندگی گزار سکتی تھی ۔ میں اندرا گاندھی بن سکتی تھی ۔ مارگریٹ تھیاچر بن سکتی تھی ۔ بے نظیر بھٹو بن سکتی تھی ۔ صدر جمہوریہ بن سکتی تھی ۔ لیکن میں نے ماں بننے کو ترجیح دی ۔ ماں کوئی معمولی ہستی نہیں ہوسکتی ۔ جس کے پیروں تلے اللہ نے جنت رکھی ۔ اُس نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا ۔ ان کی تعلیم و تربیت کی ۔ ماں نہ ہوتی تو دنیا میں رنگ و بو نہ ہوتی ۔ بی بی خدیجہ بھی ماں ہے ۔ بی بی مریم بھی ماں تھیں ۔ بی بی فاطمہ بھی ماں تھیں ۔ ان جیسا تو میں نہیں بن سکتی ۔ ہاں بی بی رابعہ بننا چاہتی تھی۔ میں نقاب اوڑھ کر ‘ چہرہ چھپاکر نکلتی ہوں تاکہ غیروں کی نظر بد سے محفوظ رہوں۔ میں برقعہ پہن کر نکلتی ہوں تاکہ میرا جسم چھپا رہے ۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ ‘ماں باپ کے ساتھ ‘بچوں کے ساتھ چین و سکون کی زندگی بسر کررہی تھی کہ اچانک بتاریخ مارچ 3 ؍ 2002 میرے خرمن پر بجلی گرپڑی ۔ رند بھک پور گاؤں میں رہتی ہوں ۔ یہاں لمحے بھر میں انسان درندہ بن گیا ۔ انسانیت ہوا ہوگئی ۔ جن کو میں چچا ‘ انکل ‘ قالو ‘ بھائی کہتی تھی ۔ راکھی باندھی تھی وہی درندے بن کر مجھے چیر پھاڑ کرنے آگئے ۔ دروازہ توڑدیا گیا ۔ شدید بے رحمی کے ساتھ حملہ ہوا ۔ شائد کبھی درندے بھی ایسا نہ کریں ۔ میرا بیٹا ‘ میری 3سال کی بیٹی ‘ میرے ماں باپ سب کے خون سے تلواروں نے پیاس بجھائی ۔ اہنسا کے پجاری ‘ پنچ شیل کی مالا جپنے والے ‘ دن رات ہنومان چالیسہ پڑھنے والے سب کچھ فراموش کردیا ۔ میں رو رو کر بستی والوں کی منت کرتی رہی ۔ چیختی رہی ۔ چلاتی رہی کہ میں پانچ ماہ کے بچے کی ماں ہوں ۔ مجھ پر رحم کرو ۔ میں تمہاری بہن ہوں ۔ انہوں نے کچھ نہیں سنا ۔ ان کے بھیانک چہروں سے ‘ اُن کے شیطانی مقصد اور ارادے عیاں تھے۔ شاید انہوں نے قسم کھارکھی تھی کہ مجھے چیر کر رکھ دیں گے ۔ میری بے گناہ بچی پہلا شکار ہوئی ۔ پھر معصوم بچہ تلواروں پر اٹھالیا گیا ۔ میرے ماں باپ خون میں لت پت موت کی آغوش میں کھوگئے ۔ کوئی بچانے والا نہ تھا ۔ چاروں طرف چیخ و پکار اور آہاکار کا طوفان برپا تھا ۔ پولیس کا کوئی وجود نہ تھا یا پولیس نے آنکھ اور کان بند کر رکھے تھے ۔ رحم دلی اور انسانیت سخت دلی اور بے رحمی میں بدل گئی تھی ۔ پولیس اندھے بہروں کی فوج لگ رہی تھی ۔ بے حرکت ‘ قانون اقتدار کے محلوں کے آرام دہ بستر پر محو استراحت تھا ۔ کیاعورتیں ‘ کیابچے ‘ کیا بوڑھے ۔ کوئی نہیں بچ پایا تھا ۔ بیرونی حملہ آوروں نے بھی حکومت کی تھی لیکن کسی کے راج میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ۔ مؤرخ خاموش ہے ۔ وہ درندے جو تعداد میں گیارہ تھے مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مجھے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ یہ کون ہے جس نے پولیس کوبہرا اور قانون کو اندھا کردیا اور حکمران بہرے بن گئے ۔ وہ وقت یاد کرو جب ایک عظیم ہستی نے یہ اعلان کیا تھاکہ میری بیٹی بھی اگر چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے ۔ ہے کوئی ایسی انصاف کی مثال جو دنیا میں کسی حکمران نے پیش کی ہواس لئے مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ “Follow the Rules of Omer and Siddiq (RA)” ۔دونوں نے بھی انصاف کی اعلیٰ مثالیں قائم کی تھیں ۔ انصاف کرنے والو یہ کیسا انصاف ہے کہ گیارہ آدمی ایک ساتھ بری ہوگئے ۔ وہ ملزم تھے۔ انہیں بجائے ان کی ارتھی پر پھولوں کی مالائیں ڈالنے کے اُن کا سمان کیا گیا ۔ واہ رے انصاف واہ ۔ ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ انہیں موت کی سزا ملتی ۔ عمر قید کا مطلب عمر قید ہی ہے نہ کہ چودہ سال ۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ برہمن ہیں سزا میں ترمیم کی گئی ۔ کوئی برہمن ایسی حرکت نہیں کرسکتا ۔ میں بالقیس بانو انصاف کی کرسی پر براجمان انصاف کرنے والوں سے پوچھتی ہوں کیا واقعی انصاف کیا گیا ؟
آرٹیکل32 کے تحت سنوائی کی گئی ۔ یہ ریپ اور مرڈر کا کیس نہیں تھا یہ منصوبہ بند سازش کے تحت انتقامی کارروائی کی گئی تھی۔ جس میں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اس کو معمولی مقدمہ سمجھا گیا ۔ سپریم کورٹ کو غلط طریقے سے باور کرایا گیا صرف سنپل کیس آرٹیکل 32 کے تحت دائر کیا گیا جس میں ملزموں کے کردار کی بنا پر گورنمنٹ کو توجہ دلائی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ SLP دائر کی جاتی اور مجھے فریق بنایا جاتا ۔ قانوناً دیکھا جائے تو سابقہ جج جس نے سزا سنائی اُس کی بھی ایک رائے لینا لازم ہونا چونکہ وہ جرم سے واقف ہوتا ۔ آرٹیکل 72کے تحت صدرجمہوریہ کو اختیار ہے کسی ملزم کو چھوڑنے کے لئے یا 161 کے تحت گورنرکو ۔ انصاف کی مثال شہنشاہ جہانگیر نے بھی پیش کی تھی ۔ جب اُس نے اپنی بیوی کو دھوبن کے شوہر کے قتل کے واقعہ میں موت کی سزا سنائی ۔ یہ نہیں دیکھا کہ ملزمہ اس کی بیوی ہے ۔ میرے کیس میں تمام پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے بھاری غلطی کا ارتکاب کیا گیا ۔ یہ فیصلہ بذات خود قانون کا ریپ ہے ۔ انصاف کا قتل ہے ۔
جب انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
اب بتائیںاقرباء میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر ۔