تارکین کے فیملی فیس میں کمی نہیں ہوگی

   

کے این واصف
سعودی عرب میں تارکین وطن پر سب سے بڑا مالی بوجھ جو پڑا وہ فیملی فیس یا فیملی ٹیکس ہے ۔ یہ ٹیکس خاندان کے ہر فرد پر ہر ماہ سو ریال سے شروع ہوا جو 400 ریال پر آکر رکا۔ یعنی 4800 ریال خاندان کے ایک فرد پرسالانہ ہوگا ۔ یعنی چھوٹے سے چھوٹے خاندان کیلئے سالانہ کوئی 15 ہزار ریال سالانہ فیملی فیس ادا کرنی ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چار سال میں بے شمار افراد نے اپنے اہل و عیال کو وطن منتقل کردیا یا فیملی کے ساتھ خود بھی چلے گئے کیونکہ اتنی بڑی رقم ادا کرنا سب کے بس کا نہیں ہے۔ 2019 ء کے اواخر میں تارکین وطن میں یہ امید بندھی تھی کہ نئے سالانہ بجٹ میں فیملی فیس یا تو ختم کردی جائے گی یا اس میں کچھ کمی کی جائے گی لیکن مملکت کے وزیر خزانہ نے اپنے ایک بیان سے اس امید پر پانی پھیر دیا ۔ سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان نے اپنے بیان واضح کیا کہ غیر ملکیوں پر مقرر فیملی فیس میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں تاہم حکومت اپنی اسکیموں کا مسلسل جائزہ لیتی رہتی ہے ۔ ابھی غیر ملکیوں یا ان کے اہل خانہ پر مقرر ٹیکس میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے غیر ملکی کارکنان کے اہل خانہ پر ’’مقابل مالی‘‘ کے نام سے فیس لگا رکھی ہے ۔ اس کی شروعات جولائی 2017 ء سے کی گئی تھی ۔ پہلے سال فی مرافق (فرد خاندان) سو ریال ماہانہ مقرر تھی جو اب چار سو ریال فی فیملی ممبر ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ سال 2018 ء کے دوران ہر ادارے میں سعودی کارنان کی تعداد سے زیادہ غیر ملکی کارکنان پر بھی فیس عائد کی گئی تھی ۔ غیر ملکی کارکنان پر مقرر فیس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔ اس سے آجروں پر بھی مالی بوجھ بڑھ رہا ہے جس کے نتیجہ میں اداروں سے کافی کارکن فار غ کردیئے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی مارکٹ عمومی طور پر ٹھپ ہوگیا ، بازار پر ویرانی چھا گئی ۔ مملکت میں غیر ملکیوں کی تعداد میں کمی واقع ہونے اور ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی اور وقت پر تن خواہ نہ ملنے کی وجہ سے تارکین وطن کی ترسیل زر میں بھی کمی ریکارڈ کی جارہی ہے ۔ ایک رپو رٹ کے مطابق سعودی عرب سے 2019 ء کے دوران گیارہ ماہ میں تارکین وطن کی ترسیل زر میں 8.9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔ تارکین نے گیارہ ماہ کے دوران 113.9 ارب ریال اپنے ملکوں کو بھجوائے ۔ 2018 ء کے ابتدائی گیارہ ماہ کے مقابلے میں تارکین نے 11.15 ارب ریال کم بھیجے ۔ گزشتہ برس کے ابتدائی گیارہ ماہ کے دوران 125.1 ارب ریال بھیجے گئے تھے۔ عربی اخبار ’’الاقتصادیہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2019 ء کے دوران تارکین کے یہاں ترسیل زر میں 0.1 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ غیر ملکیوں نے 2018 ء کے نومبر میں 9.98 ارب ریال بھجوائے تھے جبکہ پچھلے سال کی ابتداء سے نومبر کے اختتام تک ترسیل زر میں گزشتہ کے مقابلے میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی ۔ 2018-19 ء کے دوران تارکین کے یہاں ترسیل زر میں سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی اور مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ترسیل زر میں کمی کے حوالے سے یہ چوتھا سال ہوگا ۔
تارکین وطن کے معاشی مسائل میں گھرنے کا معاملہ صرف سعودی عرب کا ہی نہیں بلکہ سارے خلیجی ممالک کے خارجی باشندوں کا مسئلہ ہے اور اگر ہم خلیجی ممالک میں کام کرنے والوں کی بات کریں تو ان ممالک میں ہندوستانیوں کی بہت بڑی تعداد برسرکار ہے جو پابندی سے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ وطن بھیجتے ہیں جس سے ملک کو بھاری زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے ۔ سعودی عرب یا خلیجی ممالک سے خارجیوں کی تر سیل زر میں کمی ملک کو حاصل ہونے والے زر مبادلہ پر بھی پڑے گا اور اس کا اثر ملک کے معاشی حالات پر بھی ہوگا ۔ ملک کو حاصل ہونے والے زر مبادلہ کے آنکڑ تب ہی قائم رہ سکتے ہیں ، جب ہما رے مزید نوجوان کو خلیجی ممالک میں ملازمتیں حاصل ہوں ۔
ویسے بھی ملک کے موجودہ حالات سے پریشان نوجوان مغربی ممالک منتقلی کے سوچ رہے ہوں گے تاکہ کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر کے سکون سے جی سکیں۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے ، یہاں شہریت تو حاصل نہیں ہوتی مگر یہاں اب بھی خارجی باشندوں کیلئے روزگار کے موقع نکلتے رہتے ہیں۔ ایک اعلان کے مطابق سعودی عرب نے 2019 ء کی تیسری سہ ماہی میں 5 لاکھ 52 ہزار 400 ورک ویزے جاری کئے ۔ جاری کردہ ویزوں میں 57.7 فید نجی اداروں کے لئے تھے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی کارکنان کی مجموعی تعداد 9.83 ملین ہے۔
خلیجی ممالک ہی میں نہیں بلکہ صرف سعودی عرب میں اتنی بڑی تعداد میں ورک ویزے جاری ہوئے ہیںاور کوئی عجب نہیں کہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا ۔ اطلاعات کے مطابق ہندوستان میں ملازمتوں کے مواقع گھٹ گئے ہیں ۔ تجارتی اداروں اور کارخانوں کے بند ہونے کی وجہ سے برسرکار افراد بھی اپنی ملازمتیں کھو رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ہند سعودی تعلق مزید مستحکم ہوئے ہیں ۔ یہ قائدین کے بین ممالک دوروں کا نتیجہ ہے ۔ حکومت ہند ا پنے رسوخ استعمال کر کے یہاں سے زیادہ سے زیادہ ورک ویزے حاصل کرے تو ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ کچھ حد تک حل ہوسکتا ہے۔
این آر آ ئیز کا جشن
حسب سابق اس سال بھی ایمبسی آف انڈیا ریاض نے غیر مقیم ہندوستانیوں کا جشن (پرواسی بھار تیہ دیوس) کا اہتمام کیا ۔ اس تقریب میں ہندوستانی مرد و خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید نے بتایا کہ نومبر 2020 ء میں وزیراعظم نریندر مودی ایک بار پھر سعودی عرب کا دورہ کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ماہ میں دونوں ممالک کے قائدین کے بین ممالک دورون کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں ۔ انہوں نے نائب ملک شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے ہند میں 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدہ کا خصوصی ذکر کیا ۔ اوصاف سعید نے کہا کہ ریاض میں ایمبسی کی جانب سے فلم فیسٹول کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اور اب ایمبسی تھیٹر فیسٹول کا اہتمام بھی کرنے جارہی ہے ۔
اس موقع پر کچھ سرکردہ این آر آئیز نے بھی مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ۔ بہار فاؤنڈیشن کے صدر نیاز احمد نے ’’ہندوستان کی ترقی میں این آر آئیز کا حصہ‘‘ کے عنوان سے خطاب کیا ۔ نیاز احمد نے ملک پر بوجھ بنے بغیر اپنے وطن کیلئے این آر آئیز کی خدمات کی تفصیلات پیش کیں جس میں ملک کی معیشت کو حاصل ا ین آر آئیز کے روانہ کردہ زر مبادلہ سے ملک کو حاصل ہونے والی اقتصادی طاقت کا ذکر بھی کیا ، جس کے بعد پرواسی بھارتیہ ایوارڈ یافتہ وی کے شہاب نے مخاطب کرتے ہوئے این آر آئیز کی سہولت چند تجاویز پیش کیں جس میں سعودی عرب میں کام کرنے والے کارکنان کیلئے فنڈ کا قیام ، انہیں قانونی امداد فراہم کرنا ، انہوں نے ملک میں متعارف کئے گئے شہریت ترمیمی بل کے پیش نظر کہا کہ اکثر ہندوستانی تارکین وطن خصوصاً لیبر کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاسپورٹس میں درج تفصیلات ان کے دیگر شناختی دستاویز سے میل نہیں کھاتے ۔ یہ ان کی کمی علمی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ لہذا گلف کے سفارت خانوں کو ایک خصوصی مہم کے تحت ان کے پاسپورٹس میں اصلاح کی سہولت فراہم کی جانی چاہئے۔ انجنیئر محمد ضیغم خاں نے ہندوستان میں پانی کی قلت کے عنوان پر خطاب کیا ۔ انہوں نے ہندوستان کے بیشتر حصوں میں پینے کے صاف پانی ، روز مرہ کے استعمال اور زرعی پیداوار کی ضرورت کیلئے درکار پانی کی قلت پر روشنی ڈالی ۔ ضیغم خاں نے پانی کی قلت دور کرنے کا واحد حل سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانا بتایا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے تحلیل کا عمل بھی اب آسان اور کفایتی ہوگیا ہے ۔ ضیعم خاں نے بتا یا کہ سعودی عرب میں Desalination کیلئے شمسی توانائی کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ ہندوستان میں بھی اس ٹکنیک پر عمل کیا جائے تو کفایتی داموں پر پانی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکتا ہے ۔
اس سال کا ’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ ایک ایسے وقت منعقد ہوا ہے جب ملک میں شہریت ترمیمی قانون کو لے کر اہل وطن اور تارکین وطن دونوں ہی پریشان ہیں ۔ اہل وطن کا آدھار کار ڈ ، Pan Card ، ووٹر شناختی کارڈ تو ادھر تارکین وطن کا پاسپورٹ اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے غیر معتبر دستاویز قرار دے دیئے گئے ہیں۔ جن دستاویز کو معتبر مانے جانے کا اعلان ہوا ہے ، بتایا گیا کہ یہ دستاویز اگر عوام کے پاس ہیں تو ان میں ہجے (Spelling) کی غلطی کی وجہ سے ایک دستاویز دوسرے سے میل نہیں کھائیں تو وہ بھی مشکوک یا غیر معتبر قرار پائیں گے ۔ دستاویز میں ناموں وغیر میں Spelling کی غلطیاں نہ صرف ناخواندہ افراد کے دستاویز میں ہوتی ہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کے دستاویز میں بھی ہوتی ہیں۔ ان دستاویز میں اب ترمیم یا تصحیح کے لئے لوگوں کو عدالتوں اور متعلقہ محکموں کے چکر کاٹنے پڑیں گے ۔ دوسری طرف جن کے دستاویز گم ہوگئے یا آفات سماوی کی نظر ہوگئے ، وہ ان کی کاپیاں حاصل کرنے کے لئے تگ ودو میں لگے ہوں گے ۔ اس طرح عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے رو ز مرہ کے کام کاج ترک کر کے سرکاری دفاتر کے چکر لگائیں گے ۔ کرو ڑہا افراد اپنے کام کاج چھوڑ کر دستاویز جمع کرنے میں لگیں گے تو اس کا اثر نہ صرف ان کی معیشت پر پڑے گا بلکہ اس کا اثر ملک کی GDP پر بھی ہوگا جس کی حالت پہلے ہی سے خراب ہے ۔ دستاویز میں غلطیاں عام طور سے سرکاری اہلکار وں سے ہوتی ہیں۔ جس کی سزا اب عوام بھگتیں گے۔
ملک میں اپنی قومیت ثابت کرنے کیلئے سرے سے کوئی دستاویز ہی رکھنے والے کوئی مٹھی بھر لوگ نہیں بلکہ ان کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے اور ایسے افراد بھی کروڑوں میں ہوں گے جن کے پاس مکمل اور نقائص سے پاک دستاویز نہیں ہیں ۔ اب کیا حکومت کی تفتیش کے عمل کے بعد ان کروڑوں افراد کو ترحیل Dentention Centers میں بند کردیا جائے گا ۔ اتنے افراد کو حراست میں رکھنے کو ممکن بنانے کیلئے تو آدھا ملک Detnetion Center میں تبدیل ہوجائے گا ۔ حکومت کادعویٰ ہے کہ وہ ملک سے ’’گھس پیٹیوں‘‘ (در انداز) کو نکال کر ہی دم لے گی۔ اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ غیر قانونی طور پر ملک میں گھس آنے والوں کو ملک سے نکال باہر کرنا ہی چاہئے لیکن کیا کوئی یہ بتائے گا کہ یہ گھس پیٹی (درانداز) آتے کہاں سے ہیں ۔ کیا یہ ہوا میں اڑ ھ کر آتے ہیں یا زمین سے اگتے ہیں۔ اگر یہ ہما ری سرحدوں کو چوری چھپے عبور کر کے آتے ہیں تو کیا ہما ری سرحدیں اتنی غیر محفوظ ہیں کہ ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی افراد غیر قانونی طور پر ملک میں گھس آتے ہیں۔