تاریخی بادشاہی عاشور خانہ کا نقارخانہ بوسیدگی کا شکار

   

محکمہ آثار قدیمہ، متعلقہ حکام اور عوامی نمائندے خواب غفلت میں

حیدرآباد 22 اگسٹ (سیاست نیوز) ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں ایسی بے شمار تاریخی عمارتیں ہیں جنھیں بلاشبہ فن تعمیر کی شاہکار عمارتیں کہا جاسکتا ہے لیکن اپنوں کی غفلت اور غیروں کی سازشوں، تعصب و جانبداری نے فن تعمیر کی شاہکار اِن عمارتوں کے وجود اور اِن کی بقاء کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ ایسی ہی عمارتوں میں بادشاہی عاشور خانہ بھی شامل ہے۔ اس عاشور خانہ کی تعمیر محمد قلی قطب شاہ نے 1594 ء میں کروائی تھی اور قطب شاہی دور میں یہ عاشور خانہ عزاداری کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں قطب شاہی حکمرانوں اور ارکان شاہی خاندان زیارت کے لئے پابندی سے آیا کرتے تھے۔ تاریخی کتب میں آیا ہے کہ اس کی تعمیر چارمینار بننے کے تین سال بعد کی گئی اور عاشور خانہ کے متعدد گوشوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔ ان گوشوں میں نیاز خانہ، نقار خانہ، سرائے خانہ، آبدار خانہ، لنگر خانہ، چبوترہ کے ساتھ ساتھ مکان مجاور، دفتر مجاور شامل تھے۔ ان گوشوں کے بارے میں ہم آپ کو بتادیں کہ متحدہ ریاست آندھراپردیش میں یہ اپنے نقار خانہ کے باعث الگ پہچان رکھتا ہے اور اسے سب سے بڑا نقار خانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بادشاہی عاشور خانہ کے موروثی متولی و مجاور عباس علی موسوی کے مطابق نقار خانہ کی عمارت انتہائی مخدوش ہوگئی ہے۔ ثقافتی ورثہ ہونے کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ اور متعلقہ حکام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 2011 ء سے یہی کہا جارہا ہے کہ بادشاہی عاشور خانہ کی تزئین نو کے لئے معقول بجٹ جاری کیا جائے گا لیکن اب تک کوئی بجٹ جاری نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ ماہ محرم کی آمد کو چند دن باقی رہ گئے ہیں حکومت اور متعلقہ حکام کو اِس ضمن میں حرکت میں آنا چاہئے۔ خود عوامی نمائندوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ متعلقہ محکمہ جات کو جھنجھوڑیں۔ انھیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ یہاں اِس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ چیف منسٹر اپنے ہر دورہ، جلسہ اور ریالی میں اپنے بازو پر امام ضامن بندھواتے ہیں انھیں کم از کم اس جانب فوری توجہ دینی ہوگی۔