تاریخی عمارتوں کے حدود میں غیر مجاز تعمیرات ، جی ایچ ایم سی خواب غفلت میں

   

ہائی کورٹ کی سرزنش کے باوجود تعمیرات کا سلسلہ جاری ، تاریخی عمارتوں کو نقصان کا خدشہ
حیدرآباد۔27فروری(سیاست نیوز) ہائی کورٹ کی جانب سے غیر مجاز و غیر قانونی تعمیرات کے سلسلہ میں مسلسل سرزنش کے باوجود پرانے شہر میں تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے اور عہدیداروں کی جانب سے بھاری معاملت داریوں کے ذریعہ غیر مجاز تعمیرات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے جبکہ کئی عمارتیں تو ایسی ہیں جو کہ تاریخی عمارتوں کے حدود میں تعمیر کی جا رہی ہیں ۔ تاریخی چارمینار کے قریب میں کئی ایسی عمارتیں وجود میں آچکی ہیں جو کہ تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے تعمیر کی گئی ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ ان کی تعمیرات کی جی ایچ ایم سی کی جانب سے مکمل پشت پناہی کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجہ میں تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا اور اب بھی کئی ایسی تعمیرات جاری ہیں جنہیں تاریخی عمارتوں کے حدود میں اجازت کی فراہمی نہیں کی جا سکتی لیکن تعمیر کرنے والوں کی جانب سے من مانی کرتے ہوئے سیاسی سرپرستی میں عہدیداروں کو خاموش کرواتے ہوئے تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے ۔ تاریخی چارمیناراور مکہ مسجد کے حدود میں غیر مجاز تعمیرات کی نشاندہی کے باوجود مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیداروں کی خاموشی اور ہائی کورٹ کی شہر میں غیر قانونی و غیر مجاز عمارتوں پر برہمی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جی ایچ ایم سی عہدیداروں کو ہائی کورٹ کے احکام کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی من مانیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

شہر حیدرآباد کو حکومت کی جانب سے عالمی معیار کے شہر میں تبدیل کرنے کا منصوبہ کا متعدد مرتبہ اعلان کرتے ہوئے یہ کہا جاتا رہاہے کہ آئندہ کسی بھی غیر مجاز یا غیر قانونی تعمیرکو روکنے کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں گے لیکن پرانے شہر کے علاوہ تاریخی عمارتوں کے قریب ہونے والی تعمیرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حکومت کے اعلانات اور ہائی کورٹ کے احکامات کی بلدی عہدیداروں کے پاس کوئی قدر نہیں ہے بلکہ سیاسی سرپرستی حاصل ہونے پر کچھ بھی کرنے تیار ہیں۔ ریاستی محکمہ بلدی نظم و نسق کی جانب سے بھی اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہر حیدرآباد میں غیر مجاز تعمیرات و تاریخی عمارتوں کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی جانے والی تعمیرات کو روکا جائے لیکن بلدی عہدیداروں کی عدم سنجیدگی کے سبب ایسا ممکن نہیں ہوپا رہاہے اور مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیداروں کے متعلق عوام میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ جب بھی ہائی کورٹ کی جانب سے بلدی عہدیداروں کی سرزنش کی جاتی ہے یا پھر کوئی نئے احکام موصول ہوتے ہیں تو حرکت میں آتے ہیں اور ان جائیدادوں کو نشانہ بنایا جانے لگتا ہے جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی انہیں غیر مجاز اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منہدم کردیاجاتا ہے جبکہ سیاسی سرپرستی کے حامل بلڈرس اور مالکین جائیداد کو صرف نوٹس دینے پر اکتفاء کیا جاتا ہے تاکہ وہ عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے حکم التواء حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں اسی طرح تعمیرات کے دوران بھی انہیں ایسے وقت نوٹس جاری کی جاتی ہے جب وہ اپنی نصف سے زائد تعمیرات مکمل کرچکے ہوتے ہیں اور جب نوٹس حاصل ہوتی ہے تو وہ ان نوٹسوںکے جواب اور عدالت سے رجوع ہونے کا وقت حاصل کرتے ہوئے تعمیرات کو بیشتر مکمل کرلیتے ہیں۔