نوٹ بندی سے ’مخصوص‘ گوشے کو فائدہ ہوا، اسے عوامی مفاد کا اقدام کہنا دھوکہ ۔ جی ایس ٹی نے بزنس کمیونٹی کو متزلزل کیا۔ تین طلاق، بابری مسجد فیصلہ نے بھروسہ توڑا
نئی دہلی : وزیراعظم نریندر مودی 74 ویں یوم آزادی ہند کے موقع پر ہفتہ 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو مخاطب کریں گے۔ بلاشبہ یہ برسراقتدار بی جے پی کیلئے یادگار موقع ہے کیونکہ مودی غیرکانگریسی لیڈر کی حیثیت سے لگاتار 7 ویں مرتبہ یوم آزادی خطاب کے ذریعے اپنے سینئر پارٹی لیڈر آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنا یا قومی اقتدار اپنے پاس رکھنا متعلقہ پارٹی کے مفادات کی تکمیل کیلئے نہیں بلکہ صرف اور صرف قوم و عوام کے حق میں ہونا چاہئے۔ اس میں خودبخود برسراقتدار کے ساتھ تمام پارٹیوں کا احاطہ بھی ہوجاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وزیراعظم مودی اور برسراقتدار بی جے پی نیز اُن کی مادر تنظیم آر ایس ایس کو ان اہم باتوں سے کوئی سروکار معلوم نہیں ہوتا ہے۔ وہ تمام بس اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے ’مخصوص‘ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور اسے ’’تاریخی حکمرانی‘‘ قرار دیتے ہوئے حکمرانی کی یکے بعد دیگر فاش غلطیاں کئے جارہے ہیں۔ کسی لیڈر یا پارٹی سے کوئی غلطی ہوجائے تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو اُن کو ضمیر جھنجھوڑ کر صحیح راہ پر گامزن کرائے گا، یا پھر وہ غلطی کو غلطی نہیں بلکہ اپنے ’مخصوص‘ نظریہ کے مطابق اچھائی اورعوام (آبادی کا مخصوص گوشہ) کے مفاد میں کامیاب حکمرانی سمجھتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے۔ مئی 2014ء سے مودی حکومت متذکرہ دوسرے امکان کے مطابق کام کرتی رہی ہے۔ اقتدار کے 7 ویں سال میں یہ حال ہوگیا ہے کہ جو جو کام سیاسی پارٹیوں کی بڑی اکثریت اور تقریباً دو تہائی عوام نے قومی مفاد کے سراسر منافی قرار دیئے ہیں، اسے مودی حکومت نے اپنا فخریہ ’کارنامہ ‘ سمجھا ہے۔ اس کشمکش میں امیر اور اندھی تائید کرنے والوں کا تو بھلا ہوگیا، عوام کو ٹھینگا ملا ہے جن میں ’کنول‘ کے نشان کو ووٹ دینے والوں کی بڑی اکثریت شامل ہے۔ 2014ء سے ڈھائی سال تک جنونی ہندوؤں کو بی جے پی اقتدار والی ریاستوں من مانی کیلئے کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ چنانچہ ہجومی تشدد یا ماب لنچنگ کے اَن گنت واقعات دیکھنے میں آئے۔ اس کے خاطیوں کو شاید ہی کہیں سزا ملی ہے۔ مسلمانوں، دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف ظلم کے ذریعے اپنے روایتی گوشوں میں ہندو ووٹ کو مضبوط کرنے کے بعد مودی حکومت نے اوائل 2015ء میں فرانس کی ڈیفنس کمپنی کے ساتھ رافیل لڑاکا جٹ طیاروں سے متعلق پیشرو یو پی اے حکومت کی معاملت میں نامعقول تبدیلیوں اور پھر نومبر 2016ء سے ’نوٹ بندی اسکام‘ کے ساتھ پے در پے ایسے اقدامات شروع کئے جن کا سلسلہ ہنوز غیرمختتم ہے۔ یہ تمام اقدامات بظاہر احمقانہ اور مخالف قوم ہیں لیکن ہر ایک میں بی جے پی، آر ایس ایس، وزیراعظم مودی کے دوست صنعتکاروں، بزنس مین کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ رافیل ’اسکام‘ سے انیل امبانی کو فائدہ ہوا، نوٹ بندی سے بی جے پی کا خزانہ بھرگیا۔ جی ایس ٹی یو پی اے حکومت کی تجویز تھی، اسے عجلت میں لاگو کرتے ہوئے این ڈی اے حکومت نے کریڈٹ لینا چاہا۔ بزنس کمیونٹی کو کس قدر نقصان پہنچا، سرکاری خزانہ کو فائدہ ہوا یا نہیں، اس سے بی جے پی حکومت کو سروکار نہیں۔ اپوزیشن کانگریس کی حکومتوں کو گورنروں کی مدد سے گرانا، تین طلاق کو جرم قرار دیتے ہوئے خواہ مخواہ مخصوص مذہبی برادری کے داخلی مسئلہ میں جبری مداخلت ہوئی، جس میں مذہبی طور پر جاہل خواتین نے دانستہ یا نادانستہ حمایت کی۔ منہدمہ بابری مسجد کی متنازعہ اراضی کو حکومت نے سپریم کورٹ کے ذریعے ہندو فریق کو حوالہ کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس تاریخی غلطی کے بعد اسی اراضی پر رام مندر کی سنگ بنیاد تقریب میں مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے شرکت کی ہے، جو سکیولر ملک کے بنیادی اُصول کے منافی ہے۔ مسلمانوں سے تعصب پر مبنی قانون سی اے اے کی منظوری اور این پی اے کا اعلان کرنے کے باوجود اوائل 2020ء میں دہلی اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کی کراری شکست کے بعد مشرقی دہلی میں پارٹی قائدین کی صریح اشتعال انگیزی پر فساد، این آر سی کا منصوبہ، پھر کورونا وائرس کو تبلیغی جماعت سے جوڑتے ہوئے اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کرنا۔ حکومت خارجہ پالیسی میں بُری طرح ناکام ہے۔ آج تقریباً تمام پڑوسیوں سے تعلقات کشیدہ ہیں… یہ سب موجودہ مرکزی حکومت کے ’کارنامے‘ ہیں۔ اس کا خلاصہ یوں ہوگا کہ تمام جمہوری جمہوری اداروں کو کھوکھلا کرنا مودی حکومت کا سب سے بڑا (منفی) ’کارنامہ‘ ہے! انسان غلطی کرتے کرتے ایک مرحلے پر ڈھیٹ بن جاتا ہے، پھر اسے غلطی میں کچھ غلط نظر نہیں آتا۔ یہ حال آج وزیراعظم مودی کا ہے۔
وزیراعظم مودی لال قلعہ پر آج قومی پرچملہرائیں گے
نئی دہلی : ملک میں اِس سال یوم آزادی کی تقاریب کورونا وائرس کے باعث مختلف نوعیت کی ہوگی۔ وزیراعظم نریندر مودی مہاتما گاندھی کو خراج پیش کرنے کے بعد صبح 7.30 بجے لال قلعہ پر قومی ترنگا لہرائیں گے اورخطاب کریں گے۔ اِس مرتبہ لال قلعہ میں ہونے والی تقریب کے لئے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے تمام احتیاطی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس عہدیدار پی پی ای کٹ میں ہوں گے۔ ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ) مونیکا بھردواج نے بتایا کہ کورونا کے باعث اسکولی بچے حصہ نہیں لیں گے تاہم این سی سی کیڈٹس سماجی فاصلہ کی برقراری کے ساتھ شریک ہوں گے۔ اسٹاف بھی پی پی ای کٹ میں ہوگا۔ داخلہ کے کئی مقامات پر سنیٹائزیشن پوائنٹس قائم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم کے قافلہ میں شامل ہونے والے تمام عملے کو یکم اگسٹ سے ہی کورنٹائن کیا گیا ہے ۔ وی وی آئی پی مہمانوں کے لئے اِس مرتبہ لال قلعہ کے پارک میں انتظام کیا گیا ہے۔ کورونا کے پروٹوکول پر عمل کے علاوہ نشستوں میں فاصلے کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ اِس مرتبہ مہمانوں کی تعداد بہت کم ہوگی جبکہ یہ تعداد 900 تا 1000 ہوا کرتی تھی۔ اِس مرتبہ مصافحہ نہیں ہوگا۔ فوڈ اسٹیشن نہیں ہوں گے بلکہ پیاکٹس میں سربراہ کیا جائے گا۔ مسلح افواج گارڈ آف آنر پیش کریں گے۔