چیف منسٹر کا پانچ سال قبل کیا گیا اعلان وفا نہ ہوسکا ، ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے میں محکمہ اقلیتی بہبود کا ٹال مٹول
حیدرآباد۔3۔اگسٹ۔(سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت کے محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت موجود تاریخی مساجد شاہی مسجد باغ عامہ اور مکہ مسجد میں خدمات انجام دے رہے آئمہ و مؤذنین کے علاوہ دیگر ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے معاملہ میں ریاستی حکومت کی بے اعتنائی کے نتیجہ میں ان ملازمین میں مایوسی پیدا ہونے لگی ہے کیونکہ چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے 5سال قبل اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ دونوں تاریخی مساجد میں خدمات انجام دے رہے عملہ کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے سلسلہ میں احکام جاری کریں گے لیکن اب جبکہ 5برس کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن ریاستی محکمہ اقلیتی بہبود اور ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے اس فائل کو محکمہ فینانس کے پاس روانہ کرنے کے اقدامات تک نہیں کئے گئے ۔بتایاجاتا ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود کے نئے سیکریٹری کے تقرر کے بعد دونوں مساجد میں خدمات انجام دینے والے عملہ کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے سلسلہ میں پیشرفت کی توقع کی جا رہی تھی لیکن اب تک بھی اس سلسلہ میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ ذرائع کے مطابق ایک مرتبہ پھر محض اعلان سے کام چلانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے زیر انتظام مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ کے امور کی دیکھ بھال کے علاوہ ان مساجد میں خدمات انجام دینے والے عملہ کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے سلسلہ میں اقدامات کے متعلق سابق سیکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود کو کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی وہ کسی کے رابطہ میں آتے تھے اسی لئے ان کی جگہ جناب سید عمر جلیل کی خدمات دوبارہ حاصل کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے انہیں سیکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود کی ذمہ داری تفویض کی اور محکمہ اقلیتی بہبود کے امور کو بہتر بنانے کی ذمہ داری حوالہ کی گئی۔مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ میں خدمات انجام دینے والے عملہ کا کہناہے کہ 5سال قبل چیف منسٹر نے ان ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے اور ان کے لئے رہنمایانہ خطوط کی اجرائی کے اقدامات کا اسمبلی اجلاس کے دوران اسمبلی میں اعلان کیا تھا لیکن کئی محکمہ جات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کے سلسلہ میں پیشرفت کی گئی مگر محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت موجود ان دو مساجد کے عملہ کی خدمات کو باقاعدہ بنانے سے گریز کیا جاتا رہا جو کہ حکومت میں شامل عہدیداروں کی کی متعصب ذہنیت اور حکومت کی اقلیتوں کے امور سے عدم دلچسپی کی مثال ہے۔
