تاریخ پر شب خون مارنے کی ایک اور مذموم کوشش

   

دی تاج اسٹوری

ممبئی 3 نومبر (ایجنسیز) مسلم حکمران بالخصوص مغل غیرمقامی اور لٹیرے ٹھہرے، انہیں ظالم، جابر اور ہندو دشمن قرار دیا گیا، اُن کے مدمقابل ایسے ہیروز تراشے گئے جو تاریخ کے اوراق میں شکست خوردہ تھے۔اس نئے بیانیے کے لیے میڈیا کو ہتھیار بنایا گیا۔ ارنب گوسوامی سے روبینہ لیاقت تک، بہت سے اینکرز اور میڈیا گروپس بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی گود میں جا بیٹھے مگر المیہ یہ رہا کہ بولی وڈ بھی اس انتہاپسندانہ سوچ کی زد میں آگیا۔تو کیا پریش راول کی نئی فلم‘دی تاج اسٹوری’تاریخ مسخ کرنے کے اُسی مشن کا حصہ ہے جس پر بی جے پی کی سیاست کھڑی ہے؟یہ فلم ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر توشار امریش گوئل کی ذہنی اختراع ہے۔ جب فلم کا اعلان کیا گیا تھا تب ہی سنجیدہ حلقوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ‘دی کشمیر فائلز’،‘دی کیرالا اسٹوری’اور‘دی بنگال فائلز’جیسی یک طرفہ پروپیگنڈا فلم ثابت ہوگی۔پوسٹر ریلیز ہوا تو اس کی تصدیق بھی ہوگئی جہاں تاج محل کے گنبد سے بھگوان شیو کی مورتی کو نکلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔گو پوسٹر ہی متنازع تھا مگر 16 نومبر کو فلم کا ٹریلر سامنے آیا تو یہ یقین پختہ ہوگیا کہ بی جے پی حامی فلم ساز نئی بوتل میں پرانی شراب بیچنے پر بضد ہیں۔ بابری مسجد کو ڈھانے کے لیے جو شرم ناک پروپیگنڈا گھڑا گیا تھا، اسی کو بنیاد بناتے ہوئے سنیما کے پردے پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ممتاز کا مقبرہ نہیں بلکہ ایک مندر ہے۔اس پروپیگنڈے کے لیے فلم میں مقبرے کے گنبد پر موجود کلش (ہندو دھرم کی ایک علامت)، مقبرے کے نیچے موجود 22 کمروں اور دیگر سازشی نظریات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور اس کے لیے تاج محل ہی کے ایک گائیڈ کا کردار تراشا گیا جسے پریش راول نبھا رہے ہیں۔