تانا شاہی ، نوکر شاہی اور ناطہ شاہی

   

روش کمار
پارلیمنٹ میں انڈیا اتحاد نے ای ڈی اور سی بی آئی جیسی مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے بلند کئے کہ تانا شاہی نہیں چلے گی ، لیکن آج ہم ناطہ شاہی کی بات کرنے جارہے ہیں کیسے مودی حکومت کی نوکر شاہی ناطہ شاہی کے ماڈل پر چل رہی ہے، جس طرح اعلیٰ عہدہ داروں کو بار بار ان کی خدمات میں توسیع دی جارہی ہے اس میں سیوا (خدمات ) کم اور توسیع زیادہ نظر آرہی ہے، اس حکومت میں انعام کا مطلب ہے توسیع، رہی بات خدمات کی تو کوئی بھی اعلیٰ عہدہ دار خدمات انجام دے سکتا ہے لیکن وستار ( توسیع ) خاص عہدہ دار کو ہی دی جاتی ہے اس لئے ہم نے اپنے پروگرام کا عنوان ’’ اب کی بار ایکسٹنشن سرکار ‘‘ رکھا ہے۔ تیسری بار وزیر اعظم بنتے ہی مودی سرکار کی نوکر شاہی کو لیکر جو خبریں آرہی ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار کی نوکر شاہی میں صرف اپنے آدمی کا ہی وکاس ( ترقی ) ہورہا ہے۔ اپنا معتمد ِ کابینہ، اپنا سکریٹری جنرل، اپنا پرنسپال سکریٹری، اپنا ہی معتمد داخلہ، اپنا سکریٹری، اپنا مشیر، اپنا صلاح کار، اپنا چیرمین، مودی سرکار کے دور کی نوکر شاہی کا پیشہ ور اُصول بن چکا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ نوکر شاہی میں ایک نیا کیڈر بن گیا ہے جو دہلی سے لیکر ریاستوں میں بی جے پی حکومت چلارہا ہے، اس کیڈر کا نام مودی کیڈر دیا جاسکتا ہے۔ مودی کیڈر ہی ’’ مودی پریوار ‘‘ نظر آتا ہے اس مودی کیڈر میں ہی ایک سپریم کیڈر گجرات کیڈر کا حالیہ عرصہ تک گجرات کیڈر کے کئی عہدہ دارپی ایم او سے لیکر دوسری وزارتوں میں کئی اہم عہدوں پر فائز تھے ، کئی سبکدوش ہوگئے ، کچھ کو سبکدوشی (ریٹائرمنٹ سے ) پہلے ہی ریگولیٹری باڈیز کا چیرمین بنادیا گیا۔ اس طرح ایک اُصول بنتا جارہا ہے کہ مودی کیڈر میں ایک بار جو داخل ہوگیا اُسے توسیع ملتی رہے گی‘ وہی کئی برسوں تک عہدوں پر بیٹھا رہے گا۔ پارلیمنٹ کے احاطہ میں انڈیا اتحاد نے مرکزی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کو لیکر احتجاج کیا اور کہا کہ ان تحقیقاتی ایجنسیوں کے بیجا استعمال سے اپوزیشن لیڈروں کو فرضی معاملوں میں پھنسایا جارہا ہے۔ جھار کھنڈ کے سابق چیر منسٹر ہیمنت سورین کو5 ماہ تک جیل میں رکھا گیاجبکہ جھار کھنڈ ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں (اب وہ دوبارہ عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہوچکے ہیں)۔ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کے بارے میں بھی روز ایوینو کورٹ نے بھی وہی کہا لیکن دہلی ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت پر روک لگادی۔ فرضی معاملہ داری کرنے والے کسی عہدہ دار کے خلاف مودی حکومت کارروائی نہیں کرتی۔ ایک چیف منسٹر کو آپ کیسے بناء کسی ثبوت کے جیل میں ڈال سکتے ہیں‘اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ نعرے لگارہے تھے ’’ تانا شاہی نہیں چلے گی‘‘ ۔’’تانا شاہی اور ایجنسیوں کا غلط استعمال بند ہونا چاہیئے‘‘۔ ’ تانا شاہی بند کرو‘ کا نعرہ لگتا ہے لیکن میں ناطہ شاہی کی بات کررہا ہوں۔ خاص عہدہ داروں کا جو گروپ بنایا گیا ہے یا بن گیا ہے اسے ناطہ شاہی کہا جانا چاہیئے۔ میں نوکر شاہی کوور نہیں کرتا لیکن میڈیا میں شائع رپورٹس پر تبصروں کا یہاں خلاصہ پیش کررہا ہوں۔
نوکر شاہی میں اگر ایک نیتا کا خاص کیڈر بن جائے تو پھر دوسرے قابل مستحق عہدہ داروں کی پوری زندگی برباد ہوجاتی ہے، ایِے عہدہ داروں کی وجہ سے نوکر شاہی کی اہمیت و افادیت ختم ہوجاتی ہے، ان کے گناہوں پر ہمیشہ کیلئے پردہ پڑ جاتا ہے اور ایک طویل عرصہ تک عہدوں پر بٹھاکر ان کی اتنی طاقت ہوجاتی ہے اور اسے ہی استعمال کیا جاتا رہتا ہے۔ ہم کبھی مرکز کبھی یو پی تو کبھی گجرات آتے جاتے رہیں گے تاکہ آپ کو بھی پتہ چلے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ سب سے پہلے ہم 2021 میں لوک سبھا میں وزیر اعظم کا کیا گیا خظاب سنانا چاہتے ہیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ جو کہتے ہیں اور جو ہورہا ہے اُس میں کتنا فرق ہے۔ فروری 2021 میں بھارت کی ترقی میں خانگی شعبہ کے حصہ کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نوکر شاہی کو لیکر ایک بیان دیا جو کچھ یوں تھا : ’’ سب کچھ بابو ہی کریں گے آئی اے ایس بن گئے مطلب وہ فرٹیلائزر کا کارخانہ بھی چلائے گا، آئی اے ایس ہوگیا تو وہ کیمیائی مادوں کا کارخانہ بھی چلائے گا، آئی اے ایس ہوگیا تو وہ ہوائی جہاز بھی چلائے گا، یہ کونسی بڑی طاقت بنادی ہم نے، بابوؤں کے ہاتھوں میں دیش دے کر ہم کیا کرنے والے ہیں؟ ہمارے بابو بھی تو دیش کے ہیں ؟ دیش کا نوجوان بھی تو دیش کا ہے‘‘ لیکن اصل میں کیا ہورہا ہے سب کچھ بابو ہی کررہے ہیں، اس کا اُلٹا ہورہا ہے، کچھ ہی بابو ہیں جو سب کچھ کررہے ہیں، ویسے بابو کہے جانے پر ایک بار آئی اے ایس عہدہ داروں نے اعتراض جتایا تھا۔ بابو اچھا بھی نہیں لگتا، گھر میں جو لڑکے کو بابو کہا جاتا ہے بابو کی طرح بڑا کیا جاتا ہے، وہ اپنے گھر میں اعلیٰ عہدہ دار کی طرح کا ہی برتاؤ کرتا ہے اور برا ہوکر بہت بڑا مرد بنتا ہے، لڑکیاں اس کی سچائی بتائیں گی۔
بہرحال نیتا جب کوئی بات کرتا ہے تو جھٹ سے مودی مودی کرنے سے پہلے ذرا سوچا کیجئے کہ کیا کہہ رہے ہیں، کیا ہونے والا ہے، باقی آپ کی مرضی۔ اسے آپ حکومت کے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ کی صورتحال بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرسکتے یا اُس پر بھروسہ کیا جارہا ہے جو اپنا آدمی ہو یہ ناطہ شاہی ہے۔ نوکر شاہی کے ٹاپ پر اگر ایک ہی فرد کئی سال کیلئے بیٹھ جائے تو کئی بیاچ کے عہدہ دار ان عہدوں پر پہنچے بناء ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں۔ صرف مرکز ہی نہیں گجرات اور یو پی کی ٹاپ نوکر شاہی میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا ہے اس کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔1989 بیاچ کے آئی اے ایس عہدہ دار کے کیلاش ناتھن گجرات کے چیف منسٹر کے پرنسپال سکریٹری کے عہدہ سے 18 سال بعد ریٹائر ہوئے، 2006 میں دفتر چیف منسٹر میں پرنسپال سکریٹری کے عہدہ پر سبکدوش ہوئے وہ جس دن سبکدوش ہوتے ہیں اُن کیلئے ایک نیا عہدہ بنایا جاتا ہے جس کا نام رکھا جاتا ہے چیف پرنسپل سکریٹری‘ اس عہدہ پر وہ 13 سال تک رہتے ہیں۔ سوچیئے 2006 سے 2014 تک یعنی 18 سال تک ایک ہی فرد دفتر چیف منسٹر میں چیف پرنسپل سکریٹری بنا رہا۔ کے کیلاش ناتھن 7 سال نریندر مودی کے ساتھ کام کرتے ہیں جب تک وہ چیف منسٹر رہتے ہیں اور ان کے بعد آنندی بین پٹیل اور پھر بھوپیندر پٹیل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ چیف منسٹر بدل گئے، باقی عہدہ دار بھی بدل گئے لیکن کے کیلاش ناتھن وہیں بنے رہے لیکن ہیرالڈ میں ستیش جھا کی رپورٹ میں ایک توسیع پائے عہدہ دار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا ہے کہ مودی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد کیلاش ناتھن اعلیٰ عہدہ داروں کے اس کور گروپ کی قیادت کرنے لگے جو حکومت چلارہے تھے اِسی وجہ سے وہ منتخب سیاستداں سے بھی زیادہ طاقتور بن گئے، ایک دفتر میں اور وہ بھی ایک یا دو عہدوں پر کوئی عہدہ دار 18 برسوں تک فائز رہتا ہے یا اس حکومت کے کام کرنے کے طور طریقوں کے بارے میں بتاتا ہے۔ چیف منسٹرس بدلتے گئے لیکن کیلاش ناتھ نہیں بدلے۔
’ دی ہندو‘ میں مہیش لاگا کی رپورٹ نوکر شاہی کی بدلتی شکل پر آپ لگاتار فالو کریں تو آپ کو کافی جانکاری ملے گی۔ ہمارا سوال ہے کہ کے کیلاش ناتھن کی جگہ لینے کیلئے 18 سال سے کوئی دوسرا عہدہ دار نہیں ملا، کتنے بیاچ کے عہدہ داار اس عہدہ کی راہ دیکھتے رہ گئے ہوں گے اور سبکدوش ہوگئے ہوں گے جبکہ اُصول ہے کہ ان عہدوں پر کوئی بھی دو تین سال سے زیادہ نہیں رہے گا۔ دلیل یہ پیش کی گئی کہ اس کے پیچھے کے طویل عرصہ تک ایک عہدہ پر فائز رہنے سے عہدہ دار کا شخصی فائدہ ہوجاتا ہے اور اس کا ایک مقام بن جاتا ہے۔ کیلاش کیرالہ کے ہیں لیکن تعلیم اور ابتدائی نوکری انہوں نے ٹاملناڈو میں کی اور پھر گجرات کیڈر میں آگئے۔ آپ کو یہ سب تب پتہ چلا جب وہ اس عہدہ کو چھوڑ کر نوکر شاہی سے باہر آئے۔ جب بی جے پی اسی طرح کے سوال اوڈیشہ میں اُٹھا رہی تھی جب اکٹوبر 2023 میں وی کے پانڈین نے توسیع حاصل کی تھی تب کیا گجرات کے اس عہدہ دار کے بارے میں آپ کو یاد آیا؟ یا میڈیا نے یاد دلایا؟ گجرات میں کیلاش ناتھن قریب 71 سال کی عمر تک چیف منسٹر کے دفتر میں کام کرتے رہے تو اوڈیشہ میں وی کے پانڈین 50 سال کی عمر میں ہی سبکدوشی حاصل کرلیتے ہیں تاکہ تب کے چیف منسٹر نوین پٹنائیک کی سیاست سنبھال سکیں۔ انتخابات میں شکست کے بعد پانڈین سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔2019 میں جب نوین پٹنائیک 5 ویں بار چیف منسٹر بنے تب ایک تصویر میڈیا میں آتی ہے پانڈین چیف منسٹر کے پیچھے ایسے کھڑے ہیں جیسے ان کے دوست ہوں، خاندان کے رکن ہوں، نوکر شاہی اور سیاست کے رشتوں کی ایک طویل تاریخ ہے اس ملک میں۔ ان مثالوں میں جائیں گے تو آج کی تصویر نہیں دیکھ پائیں گے۔ کیسے ایک عہدہ دار چیف منسٹر کا اعتماد حاصل کرلیتا ہے اور ساری نوکر شاہی میں طاقتور بن جاتا ہے کیا جونیئر، کیا سینئر ان سب کا بھید بھاؤ مٹ جاتا ہے۔ اس طاقت کا استعمال کس طرح کے کام میں کیا جاسکتا ہوگا یہ سب بھی ہیں اہم اور اس کے بے شمار نتائج آپ کے سامنے بھی ہیں۔ جیسے ہی پانڈین نے سبکدوشی حاصل کرلی‘ انہیں اُسی شعبہ کا صدرنشین بنادیا گیا جس کے وہ سکریٹری تھے اور کابینی وزیر کا درجہ دے دیا گیا۔ ہر سیاسی جماعت کی حکومت کے دور کے قصے ایسے نوکر شاہوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن مودی اور یوگی سرکار کے دور میں جو ہورہا ہے وہ یا توکچھ زیادہ ہے یا پھر کچھ نیا ہے۔ چندچنندہ عہدہ داروں کا گروپ بناکر حکومت چلانے کی روش کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس سے خود نوکر شاہی بھی اندھیرے میں چلی جاتی ہے اور مایوس ہونے لگتی ہے کیونکہ اوپر کا راستہ سب سے طویل عرصہ تک بہت سارے عہدہ داروں کیلئے بند کردیا جاتا ہے۔
سوچئے اوڈیشہ میں بی جے پی تحریک چلارہی تھی کہ پوری حکومت ایک نوکر شاہی کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اس کے قبضہ میں ہے اور یہاں گجرات میں کسی کو بھنک تک نہیں لگی کہ ایک آدمی 18 سال تک نوکر شاہی کا مرکزی کردار بنا رہتا ہے، نہ جانے کیلاش ناتھن کے بعد بھی کتنے قابل عہدہ دار آئے ہوں گے لیکن انہیں وہ اہم موقع نہیں ملا جو نریندر مودی کے قریبی ہونے کی وجہ سے ملا۔ ہم ابھی مرکز کی سطح پر بھی آئیں گے لیکن یو پی کے ایک واقعہ کا ذکر ضروری ہے۔ یو پی میں آئی اے ایس عہدہ دار منوج کمار سنگھ کو چیف سکریٹری بنائے جانے کو لیکر بہت زیادہ چرچے ہیں۔ چرچا یہ ہے کہ 2024 کے نتائج آنے کے بعد چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کردیا ہے، وہ اپنی پسند کے منوج کمار سنگھ کو چیف سکریٹری بنانے میں کامیاب ہوئے۔ منوج کمار سنگھ نے اپنے پوسٹ میں صرف یوگی کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی حکومت میں وہ ترقی کے عمل میں اپنا اہم حصہ ادا کریں گے۔ یہ صحیح بھی ہے کیونکہ وہ ان کے چیف منسٹر ہیں لیکن اس سے پہلے کہ عہدہ دار دُرگا شنکر مشرا نے عہدہ چھوڑنے کے بعد ٹوئٹر پر ایک طویل سا پوسٹ لکھا ہے جس میں انہوں نے چیف منسٹر کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی سے اظہار ممنونیت کیا ہے، یہ ہے نا کمال جو عہدہ پر آرہا ہے وہ چیف منسٹر سے اظہار تشکر کررہا ہے اور جو عہدہ سے جارہا ہے وہ چیف منسٹر اور وزیر اعظم سے اظہار ممنونیت کررہا ہے۔ دُرگا شنکر مشرا کو تو ڈسمبر 2021 میں ہی ریٹائر ہوجانا چاہیئے تھا لیکن مرکزی حکومت نے ان کی خدمات میں توسیع کرنی شروع کردی۔ ڈسمبر 2022 میں انہیں ایک اور سال کی توسیع ملی ۔ ڈسمبر 2023 میں پھر سے ان کی خدمات میں 6 ماہ کی توسیع کی گئی تاکہ انتخابات تک وہی بنے رہیں۔