تجارتی خبریں

   

نامپلی میں سونے چاندی کے زیورات کے لئے
سب سے پرانا خاندانی شوروم محمد خان جویلرس
کسی بھی تجارت میں میعار اور ایمانداری کے ساتھ انسانی جذبہ کارفرماہو تا اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ نامپلی میں محمد خان جویلرس کے بارے میں بھی کچھ یہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کوگزشتہ آٹھ دہائیوں سے ذیادہ عرصے سے جویلری کی تجارت میں ایک مقام حاصل ہے۔آندھراپردیش کے گنٹور شہر میں الحاج محمد خان صاحب نے سنہ 1936ء میں محمد خان جویلرس کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ انہوں نے اپنی محنت سے اس تجارت میں اونچا مقام حاصل کیا۔ ہر مذہب کے لوگ آپ کی خوش اخلاقی اور ہمدردی کے رویہ عمل کو بہت پسند کرتے تھے۔ الحاج محمد خان صاحب با وقار شخصیت اور ہر دل عزیز تھے۔ ان کے مزاج میں جذ بہ خدمت خلق سے بھرپور تھا۔ الحاج محمد خان صاحب اپنے کامیاب 55 سال کے عرصہ کے بعد زیورات کی دنیا میں صحیح کوالٹی کی پہچان سے روشناس کروانے کیلئے1991ء میں شہرحیدر آباد دکن کے لیے علاقہ نامپلی میں محمد خان جویلرس کی برانچ قائم کی۔ اُن کی سر پرستی میں تربیت یافتہ ہو نہار شخصیتیں اُن کے فرزند الحاج ڈاکٹر نعمت اللہ خان اور نواسے مختار احمد اس پیشہ کو پوری دیانتداری کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔
الحاج مختار احمد بتاتے ہیں کہ محمد خان صاحب کے لئے سونے چاندی کی کاروبار صرف تجارت نہیں تھی،بلکہ وہ خدمت خلق کے جذبے سے کام کرتے تھے، آج بھی یہ شو روم اسی جذبے سے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے ہی اپنی نئی نسل کو سونے چاندی کی زیورات کی دُنیا سے واقف کروایااور عوام کی خدمت کیلئے اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی نئی نسل کے نمائندے جناب نعمت اللہ خان نے بھی پیشہ ور ڈاکٹر ہونے کے باوجود جویلری کی تجارت کو اختیار کیا، تا کہ ان کے والد محترم کے مقصد زندگی کو روشن افروز کیا جائے اور یہ کامل خدمت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گاہکوں کی فہرست میں درجہ اول پر رہے۔
مختار احمد بتاتے ہیں کہ جس طرح ہر شئے کے مختلف اقسام اور مختلف معیارات ہوتے ہیں۔ سونے کے بارے میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ 22 قراط 916 ہال مارک ہی معیاری ہوتا ہے۔ اور اس سے سونے کی قیمت کا بھی تعین ہوتا ہے۔ محمد خان جو یلرس کو ہال مارک لیسنس کیلئے BIS بیورو آف انڈین اسٹانڈرڈ کی جانب سے منتخب کیا گیا۔ بیورو آف انڈین اسٹانڈرڈ کی جانب سے مصدقہ پرفیکٹ کوالٹی کے سونے کی فروخت محمد خان جو بیلرس کی خصوصیت ہے۔ چا ہے وہ چھوٹی سی انگوٹھی یا بڑے سے بڑا ہار سب مصدقہ ہوتے ہیں۔
محمد خان جویلرس میں مختلف طرح کی آفر کے ساتھ ساتھ سونا بچت اسکیم ایک ایسی سنہری اسکیم ہے،جو کہ الحاج محمد خان صاحب نے لڑکیوں کی شادی بیارہ کے وقت اُن کے زیورات خریدنے میں دشواری اور معاشی فکر کے بوجھ کو کم کرنے اور آسانی کے ساتھ اُن کے بیاہ کی تیاری پورے اور اچھے پیما نہ پر ہو جانے کے نظریہ کے طور پر پیش کی تھی۔ جس سے کئی خاندانوں نے استفادہ حاصل کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس اسکیم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ گیارہ قسط کی اسکیم ہوتی ہے، جس میں گیارہ مہینہ مکمل ہونے کے بعد شاپ کی طرف سے ایک قسط بونس کے طور پر اضافہ دی جاتی ہے۔ مزید زیور کی بنوائی میں خصوصی گنجائش رکھی جاتی ہے اور اس اسکیم کے تحت خریدنے والے ہر فرد کو خاص تحائف دیئے جاتے ہیں۔ الحاج محمد خان صاحب ہمیشہ اپنے تجارت کے علاوہ عام انسانوں کی معاشی گنجائش اور ان کے فکر کے بوجھ اور معاشی دشواریوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ تجارتی رشتہ کے ساتھ ساتھ ہر طبقے ہر مذہب کے لوگوں کا رشتہ ان کے ساتھ جڑا رہے۔

کریمس رمضان اسپیشل پکوان ، شاہانہ افطار کا انتظام
سنیک پوری ، سکندرآباد میں مختلف ڈشیس کی پیشکش
حیدرآباد ۔ 5 ۔ فروری : ( پریس نوٹ ) : سکندرآباد میں بالکل پہلی مرتبہ کریمس مغلائی ذائقہ آپ کے لیے شاہانہ افطار کا تجربہ لے کر آیا ہے ۔ مغل کورٹس کی 112 سال قدیم میراث سے اس کا تعلق ہے ۔ دراصل جامع مسجد دہلی کے قریب حاجی کریم الدین و فرزندان جو کہ شاہانہ پکوان میں ماہر تھے کریم کی قدیم پکوان کی ترکیبوں کو محفوظ کرتے ہوئے نسل در نسل اس کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ اس رمضان میں مغل کچنس کے شاندار کھانوں کا اہتمام کیا جائے گا ۔ ان کے مطابق ان کے افطار مینو میں مختلف شیفس کی جانب سے علامتی ڈشیس جن میں نہاری ، چکن ؍ مٹن دم بریانی ، شیخ کباب ، بُرّا کباب ، شاہی ٹکڑا کے علاوہ ذائقہ دار پکوان پیش خدمت ہوں گے ۔ اس رمضان کی روحانیت کا جشن کریمس سنیک پوری میں تشریف لا کر منائیں ۔۔

پرانے شہر میں مغلائی و چائنیز پکوان کے لیے
مشہور و معروف نام ’’ہوٹل چوائس ‘‘
ان دنوں دنیا بھر میں فوڈ کلچر پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی دو راے نہیں ہے کہ حیدرآباد کا اپنا الگ فوڈ کلچر ہے اور یہاں کے پکوانوں کا کوئی موازنہ کسی اور جگہ کے پکوانوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً باہر سے شہر میں آئے سیاحوں کے لیے ایسے لذیذ پکوانوں کے لیے پرانا شہر ہی اصلی پتہ ہوتا ہے، لیکن حیدرابادیوں کے لیے بھی کئی بار اصلی ذایقے کی تلاش پرانا شہر میں ہی لے آتی ہے۔ فوڈی لوگوں کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے پرانے شہر کے ڈسٹنیشن پوائنٹس میں سے ایک پرانی حویلی کی ہوٹل چوائس کا نام بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔
پرانی حویلی علاقے میں ہوٹل چوائس مغلائی پکوانوں کے لیے مشہور ہے۔ چاہے وہ بریانی ہو، مغلائی ہو یا چائنیز چوائس کا ذائقہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ ہوٹال چوائس کے بانی محمد منیر صاحب بتاتے ہیں کہ چوائس ہوٹل کی شروعات 1998 میں ہوئی تھی۔ پرانے شہر میں چکن کے پکوانوں کے لیے مخصوص پہلی ہوٹل کے طور پر انہوں نے اس ہوٹل کو پیش کیا۔ چائنیز، مغلئی، بریانی تو ہے ہی یہاں تک کہ ہفتہ اور اتوار کو پایا اور نہاری بھی چکن میں بنتی ہے، حالانکہ عام دنوں میں بکرے کا پایا بھی دستیاب ہوتا ہے۔ فش اور پرونز کے لیے بھی یہ ہوٹل لوگوں کی پہلی پسند بنی ہوئی ہے۔ فرائڈ رائس اور نوڈلس بھی خوب پسند کیے جاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ پکوانوں میں رنگوں کا استعمال نہیں ہوتا۔جس سے صحت مند غذا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
محمد منیر صاحب ہوٹلنگ میں تقریباً چالیس سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ 1982 میں انہوں نے کتہ پیٹ میں بریانی کی ہوٹل شروع کی تھی۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حیدرآباد میں کلیانی سے الگ بیف کی بریانی کا چلن انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ پرانی حویلی میں پہلے اجوا ہوٹل کی شروعات کی اور بعد میں چائس کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ اس ہوٹل میں آج ذائقہ دار چائے کے علاوہ کئی سارے پکوان ملتے ہیں۔ ناشتے میں کھچڑی، خیمہ اور کھٹا کافی پسند کیا جاتا ہے۔ 11 بجے سے ہی لنچ کی تیاری ہوتی ہے۔
ہوٹل میں تقریبا 100 لوگوں کے لیے سیٹنگ سہولت دستیاب ہے۔ AC ہال، سپریٹ فیملی سیکشن ہوٹل کی خاص سہولتوں میں شامل ہیں۔ محمد منیر صاحب بتاتے ہیں کہ حیدرآباد میں اچھے کھانوں کی تلاش میں لوگ دور دور تک جاتے ہیں۔ پرانا شہر میں انہوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ مقامی اور باہر سے آنے والوں دونوں طرح کے لوگوں کے لیے فوڈ بہترین ذائقے کے ساتھ ساتھ سہولت بخش، صحت مند اور کفایتی بھی ہوں۔ مزید تفصیلات کے لیے 9848825887 پر ربط کریں ۔