ملک میں مودی ایجنڈہ … جمہوریت یا بادشاہت؟
راہول کے خلاف مقدمہ … الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
رشیدالدین
’’جمہوریت یا بادشاہت‘‘ ہندوستان نے ہزاروں سال بادشاہت اور پھر انگریزوں کی حکمرانی کو دیکھا ہے۔ دونوں کے دور ماضی کی یادگار بن کر کتابوں اور نصاب تک محدود ہوچکے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کے آغاز کو 75 سال مکمل ہوگئے لیکن نریندر مودی حکومت جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے بجائے ملک کو بادشاہت کے دور میں واپس لے جانا چاہتی ہے۔ وہ نسل جس نے بادشاہت کا مشاہدہ نہیں کیا، وہ نریندر مودی طرز حکمرانی کے ذریعہ شاہی نظام حکومت اور ڈکٹیٹرشپ کا نظارہ کرسکتی ہے ۔ گزشتہ دس برسوں میں مرکزی حکومت نے جو من مانی فیصلے کئے ہیں، اس کے نتیجہ میں اسے بی جے پی کے بجائے مودی حکومت کہا جانا بہتر ہے۔ بی جے پی حکومت اس وقت کہا جاسکتا تھا جب حکومت میں شامل افراد اور پارٹی قائدین کی رائے کا احترام ہو۔ یہاں تو ایک ہی شخص کی من مانی جاری ہے جو جمہوریت کے بھیس میں بادشاہ وقت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ جو چاہیں وہی ہوتا ہے اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ شاہی فرمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ تیسری میعاد میں بی جے پی کو اکثریت سے محرومی کے بعد امید کی جارہی تھی کہ دس سال بعد کم از کم جمہوریت کا غلبہ ہوگا لیکن ’’شہنشاہ ہندوستان ‘‘ کے بھیس میں موجود نریندر مودی نے حکومت کی تائید کرنے والی بیساکھیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ تلگو دیشم اور جنتا دل یونائٹیڈ جیسی اہم حلیف پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں کے مفادات کی اسیر بن چکی ہے جس کے نتیجہ میں جمہوریت کی یرغمالی کی مدت ختم نہیں ہوئی ہے۔ جس طرح بادشاہت میں صرف راجہ ، مہاراجہ کی مرضی چلتی ہے اور رعایا کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی درباری بادشاہ کی مرضی کے خلاف زبان کھول سکتا ہے۔ کچھ یہی صورتحال ہندوستان کی ہے جہاں غیر معلنہ بادشاہت قائم ہے۔ درباریوں کو صرف اپنی کرسی بچانے کی فکر ہے۔ بادشاہ سلامت کے آگے ہر کوئی دست بستہ یہی کہہ رہا ہے کہ ’’مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔‘‘ ابتداء میں یہ تصور تھا کہ حکومت کا ریموٹ آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے لیکن تیسری میعاد میں یہ اندازے غلط ثابت ہوئے اور صرف اور صرف مودی ایجنڈہ ملک میں نافذ ہے ۔ بادشاہ وقت کے ذہن میں جو بات آتی ہے ، اسے قانون کی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر منصوبہ کامیاب نہ ہو تو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کردیا جاتا ہے ۔ ون نیشن ون الیکشن اس کی تازہ مثال ہے ۔ ناقابل عمل اسکیم کے باوجود اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تاکہ ’’شاہ عالم‘‘ کے جذبات کی تسکین ہو۔ ون نیشن ون الیکشن بل کیلئے بی جے پی کی جانب سے ارکان کو وہپ کی اجرائی کے باوجود کئی بی جے پی ارکان غیر حاضر رہے۔ بل کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت ضروری ہے لیکن لوک سبھا میں این ڈی اے کو حاصل عددی طاقت کے مطابق ارکان کی تائید حاصل نہیں ہوسکی اور محض 269 ارکان کی تائید پر اکتفا کرنا پڑا۔ توقع کے مطابق بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) سے رجوع کردیا گیا ۔ نریندر مودی کے شاہی انداز کارکردگی اور ذہنیت کے مطابق بھلے ہی کامیابی نصیب نہ ہو لیکن نفس کی تسکین ضرور ہونی چاہئے ۔ سابق صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے ون نیشن ون الیکشن کے حق میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بادشاہ وقت کو خوش کردیا تاہم وسیع تر اتفاق رائے کی تجویز پیش کی ۔ مودی حکومت نے رام ناتھ کووند کی ون نیشن ون الیکشن کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے بل تیار کردیا۔ آخرکار اسے وسیع مشاورت کے لئے پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کرنا پڑا۔ نریندر مودی کو بل کی کامیابی یا ناکامی سے زیادہ اطمینان اس بات پر ہے کہ ان کا ایجنڈہ آگے بڑھ چکا ہے ۔ دنیا کی کسی بھی ملک میں صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے بیک وقت انتخابات کا کوئی رواج نہیں ہے۔ اگر 2029 سے ون نیشن ون الیکشن پر عمل کیا جاتا ہے تو ان اسمبلیوں کا کیا ہوگا جن کی میعاد 3 تا 4 سال باقی ہے۔ کیا دستور میں مقررہ میعاد سے قبل اسمبلی تحلیل کرنے کی کوشش موجود ہے؟ اگر گنجائش ہے تو اس کی وجوہات اور حالات مختلف ہیں۔ ون نیشن ون الیکشن پر عمل آوری کے فوری بعد سیاسی بحران کے سبب کسی ریاست کی حکومت زوال سے دوچار ہوجائیںتو کیا اس ریاست کو آئندہ پانچ برسوں تک عوامی منتخب حکومت سے محروم رکھتے ہوئے صدر راج کے ذریعہ چلایا جائے گا ؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہیں ۔ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار کی آڑ میں گزشتہ 10 برسوں میں کئی ریاستوں میں اپوزیشن کی منتخب حکومتوں کو گرانے کا کام کیا۔ کسی بھی ریاست میں حکومت پانچ سال برقرار رہنے کی کوئی گیارنٹی نہیں دی جاسکتی۔ جب حکومت کی برقراری کی ضمانت نہیں تو پھر ون نیشن ون الیکشن کا وجود بے معنی ہوجائے گا۔ کیا مودی حکومت آئندہ پاچن برسوں تک کسی بھی اپوزیشن حکومت کے عدم استحکام کی سازش نہیں کرے گی؟ کسانوں کے قوانین کے سلسلہ میں مودی حکومت کو قدم واپس لینے پڑے اور کسانوں کے احتجاج کے سبب تینوں مخالف کسان قوانین سے دستبرداری اختیار کرنی پڑی۔ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی کے نتیجے میں طلاق ثلاثہ پر پابندی کا قانون منطور کرلیا گیا ۔ وقف ترمیمی بل 2024 اور یکساں سیول کوڈ مودی کا شخصی ایجنڈہ ہے اور دونوں پر ملک کا اتفاق رائے مشکل ہے ۔ لہذا وقف ترمیمی بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کرنا پڑا جبکہ یکساں سیول کوڈ کا بھی یہی حشر ہوگا۔
ملک میں نفرت کے ایجنڈہ کو فروغ دینے والی دوسری اہم شخصیت امیت شاہ کی ہے جنہوں نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں جلد ہی یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جائے گا ۔ پارلیمنٹ میں دستور ہند کی پاسداری اور دستور کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی خدمات پر مباحث کے دوران امیت شاہ نے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے نظریات کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے مخالف دلت جذبات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے بارے میں امیت شاہ نے انتہائی توہین آمیز ریمارکس کئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اپوزیشن کو امبیڈکر کے نام پر سیاست کرنے کی عادت ہوچکی ہے۔ ’’جس طرح امبیڈکر کا نام بار بار لیا جارہا ہے ، اگر وہی بھگوان کا نام لیا جائے تو سات جنم تک شائد سورگ مل جائے‘‘۔ امیت شاہ کے الفاظ میں دراصل اعلیٰ ذات کے غرور اور تکبر کا کھل کر اظہار ہوا ہے، ڈاکٹر امبیڈکر کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ اور اس کے باہر بی جے پی قائدین نے بارہا ڈاکٹر امبیڈکر کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی۔ اپوزیشن پارٹیاں امبیڈکر کی توہین کے مسئلہ پر احتجاج کر رہی تھی کہ اچانک بی جے پی نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان مڈبھیڑ کی اور دھکم پیل میں بی جے پی کے دو ارکان زخمی ہوگئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انڈیا الائنس کے ارکان کسی مقام پر احتجاج کر رہے ہوں تو وہاں بی جے پی ارکان کو جانے کی کیا ضرورت تھی ۔ دراصل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بی جے پی ارکان نے کانگریس ارکان سے جھڑپ جیسی صورتحال پیدا کرتے ہوئے راہول گاندھی کو نشانہ بنایا۔ دھکم پیل میں بی جے پی کے دو ارکان کے زخمی ہونے کے لئے راہول گاندھی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ غیر جانبدار نیوز چیانلس نے جو ویڈیو وائرل کیا ، اس میں راہول گاندھی کی جانب سے دھکا دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے باوجود اس کے زخمی ارکان سے بیان حاصل کرتے ہوئے راہول گاندھی کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ۔ ویسے بھی کانگریس پارٹی اور گاندھی خاندان کو جدوجہد آزادی سے لے کر آج تک مقدمات اور جیل سے کافی قربت ہے۔ کانگریس قائدین بالخصوص راہول گاندھی مقدمہ سے خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔ نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں بی جے پی حکومت نے سونیا گاندھی ، راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ، لوک سبھا میں پرینکا گاندھی کے داخلہ کے بعد نریندر مودی اور امیت شاہ کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ دستور پر مباحث کے دوران پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر کے ذریعہ کروڑہا ہندوستانی عوام کا دل جیت لیا۔ لوک سبھا میں راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کا سامنا کرنے سے بی جے پی قیادت خوفزدہ ہے ۔ بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے نہ صرف راہول گاندھی بلکہ کانگریس کیڈر کے حوصلوں کو پست کرنے کی سازش ہے۔ راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ مودی حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ بھائی اور بہن سے خوفزدہ مودی حکومت مقدمات کا سہارا لے رہی ہے لیکن اسے جان لینا چاہئے کہ راہول گاندھی پر مقدمہ سے ملک میں مودی حکومت اور بی جے پی کی بزدلی ثابت ہوچکی ہے۔ نعیم اختر برہان پوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
تو کسی اور سے نہ ہارے گا
تجھ کو تیرا غرور مارے گا