ترنگا میں لپیٹے کلیان سنگھ کے تابوت پر بی جے پی کا پرچم قومی پرچم کی توہین

   

برندا کرت

کئی مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں قومی پرچم کے استعمال سے متعلق کوئی مخصوص قانون یا ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ ویٹنام میں امریکی فورسیس کے کیمپس کے خلاف امریکی پرچم کو نذرآتش کئے جانے کی تصاویر آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور یہ تصاویر ایک ہنگامہ خیز تاریخ کا حصہ ہے۔ امریکی پرچم کو جلائے جانے کو ایک غیرقانونی کارروائی نہیں سمجھا گیا، لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک ہندوستان میں 1950ء سے قومی پرچم کے بارے میں ضابطہ اخلاق موجود ہے اور اس قانون میں سال 2002ء میں ترمیم کی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بہت سخت قانون ہے، لیکن اسے بناء کسی مخالفت کے منظور کیا گیا، اب قومی پرچم سے متعلق قانون پھر ایک مرتبہ خبروں میں ہے، کیونکہ حال ہی میں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں سابق چیف منسٹر اور سابق گورنر راجستھان کلیان سنگھ کی موت پر انہیں اس طرح خراج عقیدت پیش کیا گیا، وہ قابل مذمت رہا۔ کلیان سنگھ کے دیہانت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بی جے پی کے کئی اعلیٰ قائدین بشمول وزیراعظم نریندر مودی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ اور اہم دستوری عہدوں پر فائز بے شمار شخصیتوں نے شرکت کی۔ قوم پرستی کا دَم بھرنے والی بی جے پی نے اس دوران قومی پرچم کی عزت و احترام کو یکسر فراموش کردیا۔ کلیان سنگھ کے تابوت پر قومی پرچم ڈھانکا گیا تھا۔ ویسے بھی کسی بھی اہم قائد کی سرکاری سطح پر آخری رسومات کی انجام دہی کے دوران تابوت پر نصف حصے تک قومی پرچم رکھا جاتا ہے لیکن بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے قومی پرچم پر اپنی پارٹی بی جے پی کا پرچم ڈال دیا۔ جو تصاویر منظر عام پر آئیں اس میں دکھایا گیا کہ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی اور پارٹی صدر نڈا خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔ تصویر میں خاص طور پر یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی پرچم کے نیچے قومی پرچم ہے جو دراصل قومی پرچم سے متعلق قانون سال 2002ء کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کی دفعہ 2.2(i) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب کبھی قومی پرچم کی نمائش کی جائے، تب قومی پرچم کا مقام بلند و بالا اور قابل احترام ہونا چاہئے اور اسے دوسرے پرچموں سے ممتاز رکھنا چاہئے، لیکن کلیان سنگھ کے تابوت کو قومی پرچم سے لپیٹا تو گیا ، تاہم اس پر بی جے پی کا پرچم ڈال کر قومی پرچم کی بے حرمتی کی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا قومی پرچم کی اس توہین پر کیا کوئی مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ نے 17 جولائی 1947ء کے اپنے شمارے میں اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ زعفرانی پرچم کو قومی پرچم کے طور پر قبول کیا جائے۔ یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست کو آر ایس ایس کے ’’آرگنائزر‘‘ میں یہ بات شائع کی گئی تھی کہ جن لوگوں کو قسمت سے اقتدار ملا ہے وہ ترنگا ہمارے حوالے کردیں لیکن اس کا کبھی احترام نہیں کیا جائے گا اور جو قومی پرچم ہوگا، وہ ہندوؤں کی ملکیت ہوگا۔ آر ایس ایس کے ترجمان میں یہ بھی لکھا گیا کہ لفظ ’’تین‘‘ خود اپنے آپ میں ایک برا لفظ ہے اور تین رنگوں والا پرچم یقینا ملک پر ایک نفسیاتی اثر ڈالے گا اور یہ ملک کے لئے مضر ہے۔
جس وقت مہاتما گاندھی کا قتل ہوا تھا، اس کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی اور حکومت سنگھ پریوار کی اس سرپرست تنظیم پر سے پابندی ہٹانے کی جو شرط عائد کی تھی، وہ یہی تھی کہ آر ایس ایس قومی پرچم کو قبول کرے۔ اُس وقت کے معتمد داخلہ ایچ وی آر اینگر نے مئی 1949ء کو ایم ایس گولوالکر کے نام مکتوب میں لکھا تھا ’’واضح طور پر قومی پرچم کی قبولیت ملک کو یہ اطمینان دلانے کیلئے ضروری ہے کہ آر ایس ایس ریاست کے تئیں وفاداری کے بارے میں کوئی تحفظاتِ ذہنی نہیں رکھتی‘‘۔ اس طرح کی تاریخ بی جے پی قائدین کیلئے کوئی غیرمعمولی بات نہیں کیونکہ اکثر بی جے پی قائدین، آر ایس ایس کی نفرت پیدا کرنے والی شاکھاؤں کے تربیت یافتہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے قومی پرچم پر اپنی پارٹی کا پرچم لپیٹ دیا۔ اکثر یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ بی جے پی قائدین اور کارکن کئی موقعوں پر قومی پرچم کی توہین کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد، اقلیتوں کے مکانات و دکانات کو آگ لگانے جیسے واقعات کے دوران یہ غنڈے زعفرانی پرچموں کے ساتھ قومی پرچم بھی اپنے ہاتھوں میں لئے رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف نفرت سے بھرپور کارروائیاں بھی قوم پرستی کا کام ہے، حالانکہ نیشنل آنر ایکٹ 1971ء کی دفعہ 2 میں واضح طور پر کہا گیا کہ ہندوستانی قومی پرچم اور دستور ہند کی توہین چاہے وہ برسرعام کی جائے یا پھر خفیہ طور پر کی جائے، اس کے تعلق سے توہین آمیز الفاظ بولے جائیں یا لکھے جائیں یا اسے تمثیلی انداز میں پیش کیا جائے تو وہ مستوجب سزا ہے اور اس کے لئے تین سال کی سزائے قید دی جاسکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو بتادوں کہ 2020ء کے دہلی فسادات کے موقع پر بھی بی جے پی کی نفرت انگیز تقاریر کرنے والے قائدین نے اپنی زہریلی تقاریر ذریعہ یہ تشدد بھڑکایا تھا۔ کپل مشرا ان میں سے ایک ہے۔ اس کی تقاریر کے نتیجہ میں فسادات پھوٹ پڑے اور حیرت کی بات ہے کہ اس میں دارالحکومت کے قلب میں خودساختہ امن ریالی کا اہتمام کیا گیا جس میں کپل مشرا کے حامی ہاتھوں میں قومی پرچم تھامے اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے، ان میں ایک نعرہ ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ بھی تھا لیکن کسی کے خلاف بھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
ستمبر 2015ء میں گاؤکشی کے جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے ہجومی تشدد کا آغاز کیا گیا اور محمد اخلاق نامی شخص کو انتہائی بے دردی سے ہلاک کردیا گیا۔ اس مقدمہ کے ایک کلیدی ملزم کی طبعی موت ہوتی ہے تو سنگھ پریوار کے ارکان ، اس کی نعش کو قومی پرچم سے لپیٹتے ہیں اور اسے امر قرار دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں پھر ایک مرتبہ قومی پرچم کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ اب کئی لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسے وقت جبکہ قتل ، غارت گری اور تشدد جیسے سنگین جرائم کا سامنا کررہے ہیں، ان حالات میں قومی پرچم کی بے حرمتی سے متعلق جرم کے بارے میں اس قدر فکرمند کیوں ہونا چاہئے؟آج ہندوستان میں فرضی قوم پرستی کے نام پر تشدد بڑھتا جارہا ہے، ہندوستان کی شبیہ متاثر کی جارہی ہے اور قومی پرچم ہاتھ میں تھامے اقلیتوں پر تشدد کیا جارہا ہے۔ غرض! بی جے پی قومی سکیولر علامتوں کی توہین کررہی ہے۔ ان حالات میں اس کی شدت سے مخالفت کرنا بہت ضروری ہے۔