رام پنیانی
جاریہ سال 15 اگست 2022ء کو ہم برطانوی حکمرانی کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے 75 سال کی تکمیل کررہے ہیں۔ یہ وقت خود کا محاسبہ کرنے اور اس تحریک کے تئیں اپنے آپ کو واقف کردینے کا ہے جس کے ذریعہ ہمیں آزادی ملی۔ یہ ہمارے لئے اس بات کا جائزہ لینے کا بھی وقت ہے کہ آیا ہم جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے مجاہدین آزادی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کررہے ہیں؟ آیا ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں؟
آزادی کے 75 سال کی تکمیل کے پرمسرت موقع کو یادگار بنانے کی خاطر وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت ہند نے عوام پر زور دیا ہے کہ 13 اگست اور 15 اگست کے درمیان اپنے مکانات پر قومی پرچم لہرائیں۔ اس موقع کو حکومت نے آزادی کا امرت مہااتسوکا نام دیا ہے۔
جہاں تک مودی حکومت نے ہر مکان پر ترنگا لہرانے کی بات کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی اسی طرح کا ایک تماشہ ہے جو کورونا وائرس وباء میں شدت کے دوران کیا گیا تھا۔ اس خطوط پر ہر گھر ترنگا مہم کا اعلان کیا گیا۔ ہم نے بحیثیت ایک قوم بحیثیت ایک ملک اپنے قومی دنوں پر قوم پرچم لہرانے کے عمل سے غیرمعمولی عزم و حوصلہ حاصل کیا اور جشن آزادی و جشن یوم جمہوریہ پورے جوش و خروش سے منایا۔ ہر 15 اگست اور 26 جنوری کو ترنگا لہراتے ہوئے یا پرچم کشائی انجام دے کر ہم نے جو گہرا جذبہ حاصل کیا، اس کی یادیں تازہ کرتے ہیں، ساتھ ہی جمہوریہ ہندوستان نے اس پرچم کو اپنایا۔ اس جمہوریہ ہند اور اس کے عوام کی بہبود کیلئے کام کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال سارے ہندوستانی بڑے پیمانے پر جشن یوم آزادی مناتے ہیں تو پھر آزادی کی 75 ویں سالگرہ پر کیوں ہر گھر ترنگا مہم چلائی جارہی ہے۔ ایک طرف یہ ایک قابل خیرمقدم قدم ہے اور دوسری سطح پر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں ، دلتوں اور خواتین کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے ساتھ امتیاز اور جانبداری برتتے ہوئے ہمارے دستور کے پاکیزہ جذبہ کو بری طرح روندا جارہا ہے۔ دستور سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ اسے ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے۔ آج ملک پر ایسا وقت آنا پڑا ہے کہ ہمارا ہنگر اِنڈکس (بھوک کا اشاریہ) نائجیریا سے مقابلہ کررہا ہے۔ بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس قدر زیادہ اضافہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دوسری طرف طوفان ،سیلاب اور شدید بارش جیسے آفات سماوی روز کا معمول بن گئے ہیں، مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے (فرقہ وارانہ ہم آہنگی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے) آج ہمارے ملک میں مودی حکومت گھر گھر ترنگا مہم کی بات کررہی ہے جبکہ سارے ہندوستانی اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ ایسے کئی سماجی کارکنوں و جہد کاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے جنہوں نے غریبوں اور کمزور طبقات کے حق میں آواز اٹھائی۔ مظلوموں کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں کا صرف یہی قصور ہے کہ انہوں نے دستور ہند کے اقدار کو برقرار رکھنے اسے پامال ہونے سے بچانے خاص طور پر تشدد کے متاثرین کی مدد کیلئے اپنے قدم بڑھائے تھے۔ اس سلسلے میں تیستا سیتلواد، آر بی سری کمار کی گرفتاریاں اور سابق آئی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ کے خلاف تازہ الزامات کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان شخصیتوں کی گرفتاری سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کس قسم کی سیاست کی جارہی ہے۔ کیسے چن چن کر دیانت دار و محب وطن جہد کاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تیستا سیتلواد، آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ ہی حکومت کے عتاب کا شکار نہیں ہیں، جہد کاروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت جو کچھ بھی کررہی ہے، اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اقتدار جس کی نمائندگی ہمارا قومی پرچم ہمارا ترنگا کرتا ہے، کیا اس کا مقصد اس طرح کا تماشہ کرنا ہے؟ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگرچہ بی جے پی ۔ آر ایس ایس جو فی الوقت گھر گھر ترنگا لہرانے کی بات کررہے ہیں، وہ خود ان اقدار کے سخت مخالف تھے جن کی نمائندگی ہمارا قومی پرچم یا ترنگا کرتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں واپس جائیں تحریک آزادی، برطانوی سامراج کے خلاف شروع کی گئیں، تحریکات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تمام تحریکوں اور جدوجہد کا مقصد ایک سکیولر جمہوری ہندوستان تھا اور ترنگا، اس کی علامت تھا۔
ہمارے لیڈروں نے ہمارے ملک کیلئے ایک نیا پرچم اپنایا ہے۔ ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ صرف بے مقصد اور تقلید کے سواء کچھ نہیں۔ ہم ایک قدیم اور عظیم قوم ہیں جس کی ایک شاندار پروقار تاریخ ہے تو پھر کیا ہمارا اپنا پرچم نہیں تھا۔ ان ہزار برسوں میں ہماری کوئی قومی علامت نہیں تھی؟ بلاشک و شبہ ہمارا پرچم تھا۔ ہماری قومی علامت تھی تو پھر ہمارے ذہنوں میں یہ خلاء کیوں؟ اسی طرح ایم ایس گولوالکر نے 14 جولائی 1946ء کو ناگپور میں گرو پورنیما کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زعفرانی پرچم ہی ہے جس نے ان کی عظیم تہذیب کی پوری پوری نمائندگی کی، یہ بھگوان کا مجسم ہے اور ہمیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ آخرکار ساری قوم اسی زعفرانی پرچم کے آگے جھکے گی۔ اس طرح کے عناصر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ترنگا ہندوستانی عوام کیلئے عزم و حوصلہ کی ایک عظیم مثال ہے۔ کئی احتجاجی مظاہروں کے دوران مظاہرین نے پروقار انداز میں ترنگا لہراتے ہوئے بتایا کہ یہ مقدس پرچم سچائی، ہندوستانیوں کے اتحاد و اتفاق کی علامت ہے۔ ایسا ہی ایک موقع سی اے اے کے خلاف شروع کردہ شاہین باغ تحریک تھی۔ احتجاجی مظاہرین نے 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر پورے جوش و خروش اور احترام کے ساتھ اپنے قومی پرچم کی پرچم کشائی انجام دی۔ اس طرح ان لوگوں نے بحیثیت شہری اپنے حقوق اور قوم پرستی کا پیغام دیا۔
حکومت یا گھر گھر ترنگا مہم کا اعلان کیا ہے، وہ 12 اگست تا 15 اگست منائی جائے گی لیکن اس کے قواعد میں ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ ترنگا کا صرف کھادی کا بنا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے، ایسے میں اب پالسٹر اور دوسرے سنتھیٹک میٹیریل کا استعمال کیا جایء گا جس سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ آیا حب الوطنی اس طرح کے اقدامات سے پیدا کی جاسکتی ہے؟
واضح رہے کہ سمرتی ایرانی جب وزیر فروغ انسانی وسائل کے عہدہ پر فائز تھیں، اس وقت یہ تجویز منظر عام پر آئی تھی کہ ہر سنٹرل یونیورسٹی پر 207 فٹ بلندی پر قومی پرچم لہرایا جائے۔ یہ تجویز دراصل مختلف یونیورسٹیز میں طلباء کے شدید احتجاجی مظاہروں سے توجہ ہٹانے کیلئے پیش کی گئی۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جب تک اخوت ، مساوات اور آزادی کے اقدار مستحکم نہیں کئے جاتے صرف علامتوں سے فائدہ نہیں ہوتا، یہی چیز حکومت کو بتانی چاہئے۔