ترکیہ میں 14 مئی کے بعد طیب ایردوان کا کیا ہوگا؟

   

عالمی طاقتیں ، رجب طیب ایردوان کے 20 سالہ اقتدار کے خاتمہ کی خواہاں
لوزان معاہدہ کا جاریہ سال جولائی میں اختتام
خلافت عثمانیہ کے احیاء کو روکنے کی تیاریاں
نیو ورلڈ آرڈر کا عالم اسلام ہوگا نشانہ

ابو معوذ
ترکیہ (ترکی)کو نہ صرف عالم اسلام بلکہ ساری دنیا میں ایک منفرد مقام و اہمیت حاصل ہے۔ مغربی اور یوروپی طاقتوں نے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی نیٹو (NATO) کا رُکن بنایا لیکن یوروپی یونین میں اس کی شمولیت کو روکنے اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ساری مغربی طاقتیں اور دنیا کے مختلف براعظموں میں واقع اُن کے اتحادی ممالک ترکیہ اور خاص طور پر اُس کے صدر رجب طیب ایردوان سے کافی پریشان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ترکیہ میں صدر ایردوان کے 20 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوجائے اور ترکیہ اُسی طرح بے بس و مجبور رہے اور مغربی و یوروپی طاقتوں کے تابع ہوجائے جس طرح 1923ء میں ’’لوزان معاہدہ‘‘ (Treaty of Lausanne) کے ذریعہ ہوا تھا۔ آپ کو بتادیں کہ جاریہ سال 14 مئی کو ترکیہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ انتخابات نہ صرف ترکیہ اور ایردوان بلکہ عالم اسلام کیلئے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک طرف ایردوان اُن انتخابات میں ہر طرح سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب 6 اپوزیشن پارٹیوں نے صدر ترکیہ کے خلاف اپنا مشترکہ امیدوار تیار کرلیا ہے۔ اس مرتبہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایردوان کیلئے ماضی کی طرح کامیابی حاصل کرنا آسان نہ ہوگا۔ ایک تو ترک کرنسی لیرا (Lira) کی قدر و قیمت میں مسلسل گراوٹ آتی رہی ہے، دوسرے مغربی و یوروپی ملکوں کے ساتھ رجب طیب ایردوان کی حکومت میں ترکیہ کے تعلقات کو کسی بھی طرح خوشگوار نہیں کہا جاسکتا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ 6 فروری کو ترکیہ میں جو تباہ کن زلزلہ آیا (اس بارے میں مختلف سازشی نظریات منظر عام پر آئے ہیں جس میں انکشاف کیا گیا کہ سامراجی و دَجالی طاقتوں نے جو ایردوان کو دوبارہ صدارتی محل میں دیکھنا نہیں چاہتے، HAARP ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور ترکیہ میں جعلی زلزلوں کے ذریعہ ملکی تاریخ کی ہلاکت خیز تباہی و بربادی لائی۔ اس زلزلے میں صرف ترکیہ میں اب تک 46,000 سے زائد افراد کے شہید ہونے کی خبر ہے اور اربوں ڈالرس کا شدید مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا جس سے ترک عوام پر مصیبتوں اور تکلیفوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا) اسی وجہ سے اب یہ سوال گردش کررہا ہے کیا یہ زلزلہ ایردوان کے اقتدار کا خاتمہ ثابت ہوگا؟ اگر دیکھا جائے تو حالیہ زلزلے سے جو تباہی ہوئی اس کے منفی و خطرناک اثرات سے باہر نکلنے کیلئے ترکیہ کی حکومت کو برسوں لگ جائیں گے۔ اگرچہ ایردوان اور ترکیہ کی دشمن سامراجی طاقتوں نے اس زلزلہ کو بہانہ بناتے ہوئے ایردوان اور ان کی حکومت کو بدنام کرنے اور ترک عوام میں ان کی امیج و ساکھ کو متاثر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، لیکن ایردوان نے اس زلزلہ اور اس میں ہزاروں کی تعداد میں عوام کے جاں بحق ہونے اور اربوں ڈالرس کے مالی نقصانات کو اللہ رحمن رحیم کی مرضی قرار دیا۔ انہوں نے اپنے عوام کو قرآن پاک کی ایک آیت لاتحزن ان اللہ معنا (’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘) کے ذریعہ غم نہ کرنے، حوصلے نہ ہارنے اور صبر و تحمل سے کام لینے، اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی اپیل کی اور بتایا کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہِل سکتا۔ ترکیہ میں زلزلے کی شکل میں جو کچھ ہوا، وہ اللہ کی مرضی و منشاء تھا اور ہمیں ہر حال میں اپنے رب کریم کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اللہ ، شکر گذار بندوں کو بے شمار انعامات و نعمتوں سے نوازتا ہے۔ جہاں تک ترکیہ میں حالیہ زلزلے اور اس کی تیاری کا سوال ہے، کہا جاتا ہے کہ 1939ء کے بعد یہ ہلاکت خیز زلزلہ ہے۔ واضح رہے کہ ترکیہ کے 81 میں سے 10 صوبوں میں بہت زیادہ نقصانات ہوئے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ 6 تا 7 ہزار عمارتیں زمین دوز ہوگئیں۔ ایردوان کو زلزلہ کے بعد ان کے ناقدین بالخصوص اپوزیشن پارٹیاں مسلسل تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں کیونکہ جن علاقوں یا صوبوں میں زلزلہ نے تباہی مچائی ہے، وہاں ان کی جماعت AKP کی حکومت ہے۔ واضح رہے کہ ایردوان پہلے استنبول کے میئر منتخب ہوئے پھر وزیراعظم اور اب صدر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام پسند ہیں۔ عوام کے دل جیت لیتے ہیں لیکن ان کی اسلام پسندی ہی ان کے اندرون و بیرون ملک دشمنوں میں اضافہ کررہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اور ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے کی خواہاں بیرونی طاقتیں زلزلے کی آڑ میں عوام کو ایردوان حکومت کے خلاف ورغلانے کی کوششیں کررہی ہیں۔ آپ کو یہ بھی یاد دلا دیں کہ 2016ء میں ایردوان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تھی لیکن 1500 سے زائد ترک شہریوں نے اپنے محبوب قائد کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے امریکہ کے اشارہ پرایردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی گئی غدار کرد فوجیوں کی بغاوت کو ناکام کردیا تھا۔ اس فوجی بغاوت میں سب سے اہم رول ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے ادا کیا تھا جو اب بھی امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گذار رہا ہے ۔ امریکہ ہنوز انہیں ایردوان حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کررہا ہے۔
اس کے بعد ترک کرنسی ’لیرا‘ (Lira)کی قدر و قیمت میں خطرناک حد تک گراوٹ آئی۔ مخالفین لاکھ کوششوں کے باوجود اس کا بھی فائدہ حاصل نہ کرسکے لیکن اب وہ زلزلہ کی تباہی و بربادی کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ 1999ء کے زلزلے کے بعد ملک میں پیش آئے واقعات کے نتیجہ میں ہی رجب طیب ایردوان اقتدار میں آئے تھے اور حالیہ زلزلوں کے بعد رائے عامہ ان کے خلاف ہوتی جارہی ہے لیکن پانسہ کبھی بھی پلٹ سکتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 2016ء کی بغاوت کے بعد سے ایردوان اور ان کی حکومت کے مخالفین کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ ان پر کڑی نگرانی رکھی گئی ہے اور کچھ تو بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں لیکن اس مرتبہ جبکہ صدارتی انتخابات بمشکل دو ڈھائی ماہ بعد ہونے والے ہیں، خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور ترکی کی اسلامی شناخت مٹاکر اُسے سکیولر بنانے والے مصطفی کمال اَتاترک کی قائم کردہ ’’ریپبلیکن پیپلز پارٹی‘‘ حرکت میں آگئی ہے اور چھ اپوزیشن جماعتوں نے ایردوان کے خلاف مشترکہ امیدوار کے طور پر مذکورہ پارٹی لیڈر کا انتخاب کیا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ترکیہ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی ایک تنظیم اسٹریٹیجک اڈوائزری سرویسیس کے ایم ڈی باکان اکیاس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ایردوان کے خلاف ایک بڑی سیاسی بغاوت ہے اور 14 مئی کو انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو کامیابی حاصل ہونی چاہئے۔ آپ کو بتادیں کہ اتاترک کی قائم کردہ پارٹی ’’ریپبلکن پیپلز پارٹی‘‘ کے جس لیڈر کو اپوزیشن نے ایردوان کے خلاف مشترکہ امیدوار بنایا ہے۔ وہ 74 سالہ سابق سرکاری عہدیدار کمال کلچادرلوہیں جنہیں ’’ترکیہ کا گاندھی‘‘ اور ’’کمال گاندھی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کمال گاندھی نے اگرچہ ایردوان کو چیلنج کیا لیکن خود ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کمال ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت کم رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کمال گاندھی اس قدر خوشی فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے ابھی سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ متفقہ طور پر اور مشاورت سے حکومت کریں گے، فی الحال تو اُن کی کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے۔ خود بیرونی طاقتوں کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایردوان کا موقف مستحکم ہے اور وہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں۔ ترک عوام کی نفسیات اور عالمی طاقتوں کی مکاریوں سے وہ بہتر طور پر واقف ہیں۔ ان کی پارٹی کے بارے میں جو رپورٹس آرہی ہیں، ان کے مطابق زلزلے کے باوجود ایردوران کی عوامی تائید میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ایردوان اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوزان معاہدہ جولائی 2023ء میں ختم ہونے ولا ہے جس کے بعد ترکی بے شمار پابندیوں سے آزاد ہوجائے گا اور اس کی معیشت کافی مستحکم ہوگی۔ ماہرین اقتصادیات نے پیش قیاسی کی ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا کی سرفہرست معیشتوں میں ترکی کا بھی شمار ہوگا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 24 جولائی 1923ء کو سوئٹزرلینڈ کے ’’لوزان‘‘ میں فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان، یونان، رومانیہ، سربیا، کروشیا اور سلوانیہ جیسے ملکوں کے ساتھ ترکی نے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ اس مقام کی مناسبت سے اُسے ’’معاہدۂ لوزان‘‘ (Treaty of Lausanne) اس معاہدہ کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ترکی پٹرول اور بوران کے ذخائر سے پٹرول اوار بوران نکال سکتا ہے، یعنی پٹرول کیلئے کھدائی کرسکتا ہے۔ترکی میں عظیم الشان ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ 1299ء سے 1923ء تک یعنی 624 سال کے دوران ایک ہی خاندان کے چھتیس (36) سلاطین نے تین براعظموں پر حکومت کی ، لیکن ایک عالمی سامراجی سازش کے تحت اسے ختم کریا گیا کیونکہ دشمنان اسلام کو اس بات کا ڈر ستا رہا تھا کہ ’’عظیم سلطنت ِعثمانیہ‘‘ (Great Ottoman Empire) کے تحت یوں ہی مسلمان جمع ہونے لگے تو انہیں شکست دینا اور ان کا استحصال کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ان کے علاقوں میں جو قدرتی وسائل بالخصوص تیل اور معدنیات کے ذخائر موجود ہیں، انہیں لوٹا نہیں جاسکتا چنانچہ اتاترک کو قوم پرستی کے نام پر اقتدار کا لالچ دیا گیا۔ اس طرح تین براعظموں پر پھیلی ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ کا خاتمہ کردیا گیا۔ ترکی میں جو مسلمانوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا، بے حیائی و بے شرمی بلکہ فحاشی کو منظم طریقہ سے عام کیا گیا، باسفورس بندرگاہ پر ترکی کے اختیارات یا جو حق تھا، اسے بے رحمی سے چھین لیا گیا اور یوروپی ملکوں نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ ترکی کو مجبور کیا گیا کہ وہ آئندہ 100 سال تک اس بندرگاہ سے گذرنے والے جہازوں سے ٹیکس وصول نہ کرے۔ اب جولائی 2023ء کو لوزان معاہدہ ختم ہونے پر ترکی بندرگاہ باسفورس پر اپنا حق ملکیت جتا سکے گا لیکن سامراجی طاقتوں کو اس سے کہیں زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ترکی میں ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کا احیاء نہ ہوجائے، اسی لئے تمام تر طاقت اس بات پر لگائی جارہی ہے کہ ترکی میں اسلام پسندوں کو حکومت و اقتدار سے دُور رکھا جائے لیکن کیا سامراجی طاقتیں اپنے عزائم میں کامیاب ہوسکیں گی یا پھر ایردوان ’’خلافت ِعثمانیہ‘‘ کے احیاء کا نعرہ لگاکر سازشوں کو ناکام بنادیں گے اور اپنے 20 سال طویل اقتدار کو آگے بڑھانے میں کامیاب ثابت ہوں گے ، یہ تو 14 مئی کو منعقدہ صدارتی انتخابات کا نتیجہ بتائے گا۔