ترکیہ نیٹو میں سویڈن کی شمولیت کا مخالف کیوں ؟

   

پروین کمال
یہ اس وقت کی بات ہے جب مغربی دنیا جنگ عظیم دوم ( 1939 تا 1945 ) کے اختتام کے بعد جنگی اثرات سے سسک رہی تھی اور خدشہ اس بات کا تھا کہ پھر کہیں سے جنگ کے شعلے بھڑک نااُٹھیں ۔ چنانچہ جنگ ختم ہونے کے تقریباً چار سال بعد 4 اپریل 1949 ء کو ایک تنظیم (Nato) ” North Atlantic Treaty Organization ” کے نام سے امریکہ کے شہر واشنگٹن میں قائم کی گئی جس کو امریکہ اور کینیڈا کے مزید (9) یوروپی ملک نے ملکر تشکیل دیا تھا جو نیٹو دفاعی اتحاد کہلاتا ہے ۔ دراصل اس اتحاد کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کمیونزم ( اشتراکی ) نظام کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کسی طرح روکا جائے کیونکہ سوویت یونین اپنے اثر و رسوخ سے پورے یورپ پر قابض ہو کر کمیونزم رائج کرسکتا تھا ۔ ان حالات سے بچنے کیلئے نیٹو تنظیم قائم کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ نیٹو کے قانون کے مطابق اگر کسی ملک پر بیرونی ملک سے حملہ ہو تو اسے فوری طور پر فوجی اور سیاسی ذرائع سے دفاع فراہم کیا جاسکے اور وقت واحد میں مسلح افواج ، اسلحہ اور ہر ممکن طریقے سے اس ملک کی مدد کی جاسکے ۔ اس طرح سے پورے یورپ کا دفاع ہوسکتا تھا ۔ دراصل یہ یورپ کو جنگ و جدل سے دور رکھنے کا ایک آزمودہ طریقہ تھا ۔ غرض یہ تنظیم دن بہ دن مضبوط و مستحکم ہوتی گئی لیکن اس کے جواب میں سوویٹ یونین بھی 1955 ء میں اپنا ایک علحدہ فوجی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ جس کو ’’ وارسا ‘‘ معاہدہ کہا جاتا ہے ۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ 1991 ء میں سوویٹ یونین ٹوٹ کر بکھیر گیا اور ’’ وارسا ‘‘ معاہدے میں شریک رکن ممالک نیٹو میں شامل ہوگئے ۔ ایک ایسی ہی کوشش فرانس نے بھی کی تھی جو اس وقت کے فرانس کے صدر ’’ ڈیگال ‘’ کے دور میں عمل میں آئی تھی ۔ انہوں نے ایک الگ آزاد قوت بنکر اُبھرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ اس اتحاد کا نام ” France detroppe ” رکھا گیا تھا ۔ اس کے تحت فرانس نے 1966 ء میں نیٹو سے علحدگی اختیار کر لی تھی ۔ لیکن پھر حالات کچھ یوں پلٹے کہ فرانس کو واپس نیٹو میں شرکت کرنی پڑی ۔ یوں نیٹو اتحاد کی تعداد بڑھی گئی ۔ اس اتحاد کو قائم ہوئے تقریباً (75) برس کا عرصہ ہورہا ہے اس میں کل (31) ملک شامل ہیں ۔ مزید چند ممالک شرکت حاصل کرنے کیلئے درخواست دے چکے ہیں ۔ لیکن انہیں ابھی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ اس کی وجہ ایسے تنازعات اور کچھ سیاسی مسائل بھی ہیں۔ نیٹو کے قوانین کے مطابق اگر کوئی نیا ملک اس اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہوجاتا ہیکہ تمام ارکان ممالک کی رضامندی اسے ملے یعنی تمام ارکان ممالک اس کے داخلے پر رضامندی کی مہر لگائیں ۔ بصورت دیگر انہیں روک دیا جاتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ اس وقت یورپ کے دو ممالک فن لینڈ اور سویڈن کے ساتھ ہوا ہے ۔ یہ دونوں ہی ملک تین سال قبل نیٹو میں شرکت کیلئے درخواست دے چکے ہیں ۔ جس پر غور کرنے کے بعد نیٹو کے ارکان ممالک کی طرف سے رضامندی تو مل گئی لیکن ان میں سے دو رکن ملک ترکی اور ہنگری نے منظوری دینے سے انکار کردیا ۔ چنانچہ نیٹو کے قانون کے مطابق جب تک وہ منظوری نہ دیں دونوں ملک شامل نہیں ہوسکتے لیکن اس وقت صورتحال میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے ۔ یوں کہ فن لینڈ کو کسی طرح نیٹو کی رکنیت حاصل ہوگئی ہے اس طرح نیٹو کے ارکان میں وہ 31) ویں ) نمبر پر ہے ۔ فن لینڈ یورپ کے ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے امن کے دوران بھی اپنی فوج قائم رکھی اور اس وقت بھی اس کے پاس بحری ، زمینی اور فضائی تربیت یافتہ افواج موجود ہیں ۔ دوسرا ملک سویڈن ہے جو ابھی تک منظوری کی امید میں کھڑا ہوا ہے ۔ لیکن تنظیم کے اہم رکن ملک ’’ ترکی ‘‘ کی طرف سے اسے داخلے کی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ اس کی دو مختلف وجوہات ہیں ۔ دراصل ترک حکومت ابھی تک کرد قبیلے کی فوجی بغاوت ( 2016 ء ) کو نظر انداز نہیں کر پائی ہے ۔ وہ کرد قبیلے کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور خاص بات یہ کہ سویڈن حکومت باغی کرد عناصر کی بھرپور حمایت کرتی ہے ۔ علاوہ اس کی ایک دل سوز وجہ یہ ہیکہ حال ہی میں ایک سویڈش رہنما نے مذہب اسلام کی بڑے پیمانے پر اہانت کی اور اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کو اسٹاک ہوم ( سویڈن کا دارالحکومت ) میں ترک سفارت خانے کے عین روبرو نذر آتش کردیا ۔ حالانکہ آج کی باشعور دنیا یہ اچھی طرح جانتی ہیکہ کسی بھی مذہب کی توہین کرنا انسانیت کے خلاف ہے ۔ پھر بھی دنیا اپنی پرانی روش پر قدم جمائے ہوئے ہے ۔ غرض اس واقعہ کے بعد ترک حکومت نے اعلانیہ کہا کہ سویڈن کو نیٹو میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔ حکومت کا سویڈن سے مطالبہ ہیکہ اگر آپ واقعی نیٹو کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان دہشت گردوں کو ہمارے حوالے کردیں جو آپ کی حمایت پر دہشت پھیلا رہے ہیں ۔ دراصل ترک حکومت چاہتی ہیکہ باغی کردوں کو کیفر کردارتک پہنچایا جائے ۔ جب تک یہ سب کچھ طے نہیں ہوگا سویڈن کو نیٹو میں داخلہ نہیں ملے گا ۔ غرض کردستان کبھی بھی ایک علحدہ ملک نہیں بن سکا ۔ یہ مشرق وسطی کے ایک جغرافیائی خطے کا نام ہے جس میں کرد نسل کے باشندوں کی اکثریت ہے ۔ ماضی میں یہ پورا علاقہ ایک ہی خطے میں شمار ہوتا تھا ۔ لیکن جنگ عظیم کے بعد اتحادی افواج نے اس پورے علاقے میں سرحدیں بنادیں اور یہ مختلف ملک بن گئے لیکن اس میں کردستان کا شمار نہیں تھا ۔ بلکہ اس کی چار ملکوں میں تقسیم کردی گئی ۔ وہ ملک عراق ، ترکی ، ایران اور شام تھے ۔ اس طرح ان کا ایک علحدہ ملک بنانے کا منصوبہ اُدھورا رہ گیا ۔ وہ خانہ بدوشوں کی طرح گھومتے رہتے ہیں جس ملک بھی جاتے ہیں وہاں اپنی مرضی سے رہتے ہیں کسی کے ماتحت بن کر رہنا ان کی عادت نہیں ۔ حاکم اعلی بھی ان پر کنٹرول نہیں کرسکے ۔ غالباً ان کی آزادی اور جمہوریت کا حق سلب ہوجانے کی وجہ سے وہ باغبانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہیں ۔ غرض ان حالات کی وجہ سے تنظیم میں تھوڑی سی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ فیصلہ کس کے حق میں ہوگا ۔