امجد خان
ترکیہ (ترکی) کے صدارتی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور موجود صدر رجب طیب اردوان کو پھر سے صدر منتخب کرلیا گیا ہے۔ ان کی کامیابی پر صرف ترکیہ میں ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ اگرچہ اردوان کو کامیابی ملی ہے لیکن بہت مشکل سے یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ انتخابات کی تواریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ساری دنیا کی نظریں NATO کے رکن ترکی پر مرکوز ہوگئی تھیں کیونکہ اردوان کے لئے یہ انتخابات ان کی زندگی کا سب سے بڑا چیالنج بن کر رہ گئے تھے اور مخالفین اس بات پر زور دینے لگے تھے کہ ترکی کے استحکام کے لئے انہیں (اردوان) کو شکست دینا ضروری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو رجب طیب اردوان کے 20 سالہ اقتدار میں اس قدر بڑا چیالنج کبھی نہیں آیا۔ بہرحال انہیں 52.14 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ ان کے حریف اور ترکی کے گاندھی کی حیثیت سے مشہور کمال قلیج اوگلو کو 47.86 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ ترکی کی سپریم الیکشن کونسل نے سربراہ احمد پنور کے مطابق دونوں امیدواروں کے درمیان 20 لاکھ سے زائد ووٹوں کا فرق رہا۔ ان انتخابات میں 64 ملین ترک باشندے حق رائے دہی کے اہل تھے جن میں بیرون ملک مقیم ترک باشندے بھی شامل ہیں۔ ترکی میں ایک ایسے وقت صدارتی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا جب ملک میں مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ معیار زندگی میں اضافہ ہوا ہے اکتوبر میں مہنگائی 85 فیصد تک بڑھ گئی اور ملک میں معیار زندگی کا بحران چل رہا ہے۔ اسی طرح رواں سال فروری میں آئے خطرناک زلزلے میں 50 ہزار سے زائد زندگیوں کا اتلاف ہوا اور حکومت ترکی کو زبردست مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ آپ کو بتادیں کہ 69 سالہ رجب طیب اردوان نے پہلی مرتبہ 2003 میں اقتدار سنبھالا تھا اور پہلے بحیثیت وزیر اعظم خدمات انجام دیں اور ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی اور استحکام کا ایک ویژن عطا کیا۔ انہوں نے اپنی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) کی حکومت کی جانب سے کئے گئے دعوؤں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس طرح اردوان کو اقتدار پر سب سے زیادہ عرصہ تک فائز رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد 100 سال کی تاریخ میں شائد یہ انتخابات (2023) خاص طور پر اردوان کے لئے بہت سخت آزمائش ثابت ہوئے۔ باقاعدہ یا رسمی طور پر اپنی شکست تسلیم کئے بغیر کمال قلیج اوگلو کا کہنا تھا کہ ان کی اصل تشویش ملک پر آنے والی مشکلات کے بارے میں ہے۔ اردوان کو اقتدار پر واپسی کے لئے جن عالمی قائدین سربراہان حکومت نے مبارکباد دی ان میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس بھی شامل ہیں۔ انہیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ترکی اور اقوام متحدہ کے درمیان تعاون و اشتراک میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان کے کارگذار وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر، الجیریائی صدر عبدالمجید تبون، آرمنسائی وزیر اعظم نکول پشینیان (ترکی اور آرمنیا کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے) نکول پشنیان نے اردوان کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر واپس ہوں گے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف، برازیلی صدر لوئس اناسیو لولاڈا سلوا، یوروپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل، یوروپین کمیشن کے صدر ارسولا وانڈرلیین فرانسیسی صدر ایمانول مائیکرون، جرمنی چانسلر اولاف شولز، ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور یہاں تک کہ اسرائیلی صدر اسحاق ایرزوک بھی اردوان کو مبارکباد دینے والوں میں شامل ہیں۔ لیبیا، مالٹا کے صدور پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف، فلسطینی وزیر اعظم محمد اشیت، امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی، روسی صدر ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے شاہ سلمان، متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زائد الہنیان، برطانوی وزیر اعظم رشی سونک، امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی رجب طیب اردوان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ بائیڈن نے خاص طور پر رجب طیب اردوان کو فون کرکے مبارکباد دی۔ اس موقع پر ایف 16 لڑاکا طیاروں اور سویڈن کے NATO میں شمولیت سے متعلق تبادلہ خیال ہوا۔ بات چیت میں جہاں اردوان نے امریکی ساختہ ایف 16 لڑاکا طیارے خریدنے کی خواہش کا اعادہ کیا وہیں جوبائیڈن نے ناٹو میں رکن کے طور پر سوہندن کی شمولیت پر اعتراض نہ کرنے ترکی سے درخواست کی رجب طیب اردوان نے اپنی کامیابی کو ترکی کی کامیابی قرار دیا۔ رجب طیب اردوان 2014 سے عہدہ صدارت پر فائز ہیں اور ان کی پارٹی نے ایک طرح سے کمال اتاترک کی اسلام دشمن پالیسیوں و پروگرامس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ 2003 میں عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے سے قبل اردوان 1994-1998 استنبول کے میئر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 2001 میں قائم کی گئی AKP پارٹی کے وہ شریک بانی بھی ہیں۔ 1998 میں انہوں نے اسلام پسند ماہر سماجیات ادیب و شاعر اور سیاستداں محمد ضیاالمعروف ضیا گوکلپ کی ایک نظم پڑھی جس میں مساجد کو بیارکوں اور مسلمانوں کو فوج سے تشبیہہ دی گئی تھی۔ اس پر انہیں مذہبی منافرت پھیلانے کے مرتکب پاکر سزائے قید سنائی گئی۔ 1999 میں ان کی رہائی عمل میں آئی جس کے ساتھ ہی انہوں نے ارکبان کی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے یوروپی عیسائی جمہوری جماعتوں کی طرز پر اسلام پسند AKP کا قیام عمل میں لایا۔ 2003، 2007، 2011 میں بھی AKP کو اردوان کی قیادت میں کامیابی ملی۔ انہوں نے سیاست میں فوج کے اثر کو کم سے کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آپ کو بتادیں کہ اردوان کی پیدائش 26 فروری 1954 میں ایک غریب لیکن راسخ العقیدہ مسلم خاندان میں ہوئی۔ وہ پوسٹ کارڈ، پانی کے بوتل (رکی ہوئی ٹریفک میں) بنڈی پر روٹی فروخت کیا کرتے تھے اور اسکندر باشاہ کے مریدوں میں سے ہیں جو سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے ایک ایسے مدرسہ ’’امام خطیب اسکول‘‘ سے 1973 سے اسکولی تعلیم مکمل کی جہاں ووکیشنل کورس بھی سکھائے جاتے تھے۔ اس مدرسہ میں قرآن و حدیث حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور عربی زبان کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد میں انہوں نے اکسرے اسکول آف اکنامکس اینڈ کمرشیل سائنس سے بزنس اڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ 4 جولائی 1978 کو ان کی شادی ایمانن اردوان سے ہوئی۔ اس جوڑے کو دو فرزندان احمد ہراق اوز نحم الدین بلال کے ساتھ ساتھ دو دختران اسرایٰ اور سمیہ ہیں۔ بہرحال اردوان کے لئے سب سے بڑا چیالنج ملک کی معیشت کو مستحکم بنانا قوم کو حالیہ زلزلہ کی تباہی و بربادی کے اثرات سے باہر نکالنا، عالمی طاقتوں کو ترکی کے بشمول اسلامی ملکوں کی اہمیت کا قائل کروانا اور مسلم ملکوں کے اتحاد کو یقینی بنانا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ رجب طیب اردوان جب جیت کے بعد صدارتی محل سے خطاب کررہے تھے اس سے ٹھیک 570 سے قبل سلطنت عثمانیہ نے استنبول فتح کیا تھا اس کے حوالے سے اردوان کا کہنا تھا کہ وہ دن ہماری تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا اور ہماری کامیابی کا دن بھی ترکیہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔ انہوں نے ملک میں مہنگائی کم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صدی ترکیہ کی صدی ہے آج کسی کو شکست نہیں ہوئی اور آج کا فاتح صرف اور صرف ترکیہ ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہیکہ آئندہ 5 برسوں میں اردوان کس طرح ترکی کی عالمی سطح پر اہمیت تسلیم کرواتے ہیں اور آنے والے چیالنجس کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں۔