ترک عوام کا غیر معمولی جذبہ حب الوطنی

   

امجد خان
ترکی میں اسلام پسند رجب طیب اردغان کی حکومت پر اندرون و بیرون ملک بُری نظریں پڑی ہوئی ہیں۔ کچھ بیرونی طاقتوں کی ایماء پر (یہ طاقتیں کون ہیں ساری دنیا اور بالخصوص ترک عوام اچھی طرح جانتے ہیں) بعض تنظیمیں ترکی کو غیر مستحکم کرنے اور خاص طور پرصدر رجب طیب اردغان کی حکومت کو زوال سے دوچار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ان تنظیموں اور طاقتوں کی کوششیں مسلسل ناکامی سے دوچار ہورہی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 15 جولائی 2016 کو ترکی میںاچانک رجب طیب اردغان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے بغاوت کی گئی تھی اور یہ بغاوت فتح اللہ گلین کی زیر قیادت دہشت گرد تنظیم FETO کی جانب سے کی گئی تھی اس ناکام بغاوت کو گذرے تین سال ہوچکے ہیں ۔ اس بغاوت کے بارے میں اور اس کے تار کہاں جڑے ہوئے ہیں اس کا پتہ لگانے کی خاطر اب تک جو بھی تحقیقات ہوئیں جو بھی شواہد اکٹھا کئے گئے اور مقدمات چلائے گئے اس سے یہی انکشاف ہوتا ہے کہ ترکی کی تاریخ کا جو خونین دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا وہ دراصل FETO نے فتح اللہ گلین کی ہدایات پر کیا تھا اور اس میں FETOکے وہ ارکان ملوث تھے جنہوں نے ترک فوج میں دراندازی کرلی تھی اور فتح اللہ گلین کے ان حامیوں نے مسلح افواج کی کمانڈر کی حکم عدولی کرتے ہوئے بغاوت کی جسے ترک شہریوں نے اپنی ناقابل فراموش قربانیوں کے ذریعہ ناکام بنادیا ہے۔ ناکام بغاوت کی شب 251 شہری جاں بحق اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

FETO نے صدر ترکی رجب طیب اردغان کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی، صدارتی کامپلکس، نیشنل انٹلی جنس آرگنائزیشن اور ترکش، نیشنل پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اہم عمارتوں و تنصیبات پر F-16لڑاکا طیاروں اور مسلح افواج کے ہیلی کاپٹرس سے حملے کئے گئے۔ ان حملہ آوروں نے اپنے ترک شہریوں پر حملے کئے اور اپنے کمانڈروں کے ساتھ دغا بازی کی جبکہ ترک فوج کے اعلیٰ سینئر عہدیدار ترکی کی جمہوری طور پر منتخبہ حکومت کو بیدخل کرنے اسے زوال سے دوچار کرنے کی کوششوں کے خلاف سختی سے اُٹھ کھڑے ہوئے پولیس اور پبلک پراسیکیوٹر نے فوری طور پر بغاوت کو ناکام بنانے کے اقدامات کئے۔ غرض ترک عوام نے بغاوت کی سازش اور منصوبے کو ناکام بنادیا اور تاریخی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا۔
ترک شہری سڑکوں پر نکل آئے باغیوں کے خلاف سینہ سپر ہوگئے ، ترک قوم نے بڑے ہی جوش و خروش اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر عالمی برادری کو یہ بتادیا کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف مسلط کی جانے والی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنی مملکت اور اس کے جمہوری نظام کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری طور پر منتخبہ حکومت کے خلاف برپا کی گئی بغاوت کو چند ہی گھنٹوں میں ناکامی سے دوچار کردیا گیا۔
جہاں تک 15 جولائی 2016 کی ناکام بغاوت کے پیچھے کارفرما عناصر کا سوال ہے اس کے تمام پہلوؤں کو جاننے کے لئے سب سے پہلے ناکام بغاوت کرنے والے تاریک نٹ ورک اس کے عزائم و ارادوں اس کے آغاز وغیرہ کو جاننا بہت ضروری ہے۔ دراصل اس نٹ ورک کا آغاز ان اسکولوں اور تعلیمی اداروں سے ہوا جسے چند دہے قبل FETO نے قائم کیا اور یہ سب کچھ 1970 میں چیاریٹی ایجوکیشن کے بھیس میں شروع ہوا اور اسے فتح اللہ گلین نے شروع کیا جو فی الوقت امریکہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ جہاں تک فتح اللہ گلین کا معاملہ ہے وہ بناء کسی مذہبی تعلیمی پس منظر کے ایک مبلغ کی حیثیت سے خود کو ظاہر کرتے ہیں۔ گلین پرائمری اسکول گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے خود کو ایک فرقہ کا رہنما بنالیا ہے جس کا عقیدہ یہ ہے کہ فتح اللہ گلین ایک مسیحا ہیں جس کا ترکی کو انتظار تھا، لیکن حققت کچھ اور ہے۔ FETO کا اصل مقصد و منشا ترکی کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی طاقت پر تمام دستوری اداروں پر قبضہ کرتے ہوئے اور (مقننہ عاملہ اور عدلیہ) کی جدید کاری کرتے ہوئے ان پر پوری طرح کنٹرول کرنا ہے۔ نام نہاد تربیتی سرگرمیوں کے نام پر قائم کردہ اسکولوں میں نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے ان لوگوں نے فتح اللہ گلین کے شدت پسند حامیوں کا ایک بہت بڑا گروپ بنالیا جس نے تنظیمی قیادت کی ہدایات کی بلا چوں و چرا تعمیل کی اور اس معاملہ میں ان لوگوں نے تمام قانونی و اخلاقی قواعد کو پامال کیا۔ ان اسکولوں کے گریجویٹس کی مختلف طریقوں سے ترکی کے اہم ترین اداروں میں دراندازی کی گئی۔

FETO نے مملکت کے وسائل کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنا اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھا لیا اور اپنی تنظیم کے مفادات کی تکمیل کے لئے اپنے قدم تیزی سے آگے بڑھائے۔ اپنی طاقت بڑھانے کے بعد اس تنظیم نے خود کے عالمی سطح کی میسحانہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کردیا اور فتح اللہ گلین کو امام عالم کی حیثیت سے ظاہر کیا جانے لگا جبکہ اس تنظیم کو چلانے کے لئے مالیہ کا نظم اس کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنیوں کو دے دی گئی۔ اپنے حامیوں سے عطیات وصول کئے جانے لگے، کاروباری حضرات، تاجرین اور صنعت کاروں سے پیسوں کی وصولی عمل میں آنے لگی۔ رقم کی غیر قانونی منتقلی اور معاشی جرائم کا ارتکاب کیا جانے لگا۔ اس دہشت گرد تنظیم نے عوامی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لئے میڈیا ہاوزس بھی قائم کئے تاکہ ان شخصیتوں، اداروں اور گروپوں کے نظریات کو دبایا جائے جو FETO کی مخالفت کرتے ہیں اور عبداللہ گلین کو ماننے سے انکار کرتے ہیں یہاں تک کہ ان میڈیا گھرانوں نے ان صحافیوں، ماہرین تعلیم اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں اور 160 ملکوں میں فوجی عہدہ داروں کی مخالفت کی جو ان کے مخالف رہے۔ آج FETO کے تقریباً 800 تعلیمی ادارے ہیں 1000 سے زائد غیر سرکاری تنظیمیں اور فاؤنڈیشنس چلاتی ہے۔ 200 سے زائد میڈیا آؤٹ لیٹس پر اس کا کنٹرول ہے اور 500 خانگی کمپنیوں کی وہ مالک ہے۔ FETO خود کو ایک خیراتی سیول سوسائٹی آرگنائزیشن کی حیثیت سے پیش کرتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مواصلات مراسلت اور کاونٹر انٹلی جنس کے اس کے اپنے خفیہ طریقے ہیں۔ اس کے فالوورس کی پہچان و شناخت کے لئے ’’ون ڈالر بل‘‘ کا خفیہ و خصوصی سیریل نمبر استعمال کیا جاتا ہے FETO سرکاری محکمہ جات میں اپنے حامیوں کو بھرتی کروانے کے لئے داخلہ ٹسٹوں میں نقل نویسی کا انتظام بھی کرتی ہے۔ ان طلبہ کو سوالات کے جوابات بھی فراہم کرتی ہے۔ FETO کا کوئی بھی رکن جو سول سرونٹ یا فوجی عہدہ دار بنتا ہے وہ قوم کا وفادار نہیں ہوتا بلکہ اپنی تنظیم اور فتح اللہ گلین کا وفادار ہوتا ہے۔
بہرحال ترکی حکومت جب اچھی طرح جان گئی کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے، FETO نے خطرناک اقدامات شروع کردیئے ہیں اور ان کے اقدامات کی لہر کا پہلا قدم دسمبر 2013 میں سامنے آیا جب FETO نے کئی ایک نام نہاد ریکارڈنگس اور ایسا مواد جاری کیا جس میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ جس کے ساتھ ہی حکومت اور عوام چوکس ہوگئے۔ اس دوران 15 جولائی کا واقعہ (بغاوت) پیش آیا تب تک FETO کے حامیو ںکی فہرست تیار کرلی گئی تھی اور انہیں خدمات سے برطرف کرنے کی تیاریاں بھی ہوچکی تھیں۔ اب پچھلے تین برسوں سے FETO کے خلاف حکومت، ترکی کے اندر اور بیرونی ممالک میں لڑائی چھیڑی ہوئی ہے اور اس کے عزائم کو ناکام بنانے میں مصروف ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان اور حیدرآباد میں بھی FETO کئی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے نام سے کام کررہی ہے۔