ترک فوج کے کوبانی میں داخل نہ ہونے کا ٹرمپ کو اردغان کو تیقن

,

   

رکن امریکی سنیٹ لنزے گراہم کا دعویٰ ، نائب صدر امریکہ و وزیر خارجہ کا مجوزہ دورہ ترکی

* واشنگٹن : امریکی سنیٹ کے رکن لنزے گراہم نے جو صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے کٹر حامی سمجھے جاتے ہیں، آج کہا کہ جب صدر
ترکی اردغان نے صدر ٹرمپ کو ٹیلی فون پر تیقن دیا کہ ترک فوج کرد زیر قبضہ علاقہ کوبانی میں داخل نہیں ہوگی، اس وقت وہ بھی بات چیت میں شریک تھے ۔ صدر ترکی نے صدر امریکہ کو تیقن دیا کہ ترک فوج کردوں کے گڑھ شمالی شام کے علاقہ کوبانی میں جو ترکی کی سرحد سے متصل ہے داخل نہیں ہوگی تو اس وقت وہ بھی صدر امریکہ کے ساتھ ٹیلیفون پر صدر ترکی کی بات چیت کے وقت شریک تھے۔ اگر ترکی کرد علاقوں میں کوبانی کے اطراف و اکناف فوجی کارروائی جاری رکھے تو یہ صدر اردغان کے تیقن کی خلاف ورزی ہوگی اور کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا ۔ لنزے گراہم ریپبلیکن پارٹی کے رکن امریکی سنیٹ ہیں، نائب صدر امریکہ مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پمپیو انقرہ کا دورہ کرنے والے ہیں تاکہ ترکی کی فوجی کارروائی شمالی شام میں کردوں کے خلاف ختم ہوچکے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ پہلے ہی اس کا اعلان کرچکے ہیں۔

صدر ترکی نے شام میں جنگ بندی کا امریکی مطالبہ مسترد کردیا

انقرہ ۔ 16 ۔ ا کتوبر (سیاست ڈاٹ کام ) ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ترکی پر عائد پابندیوں اور روس نواز شامی فورسز کی ترک سرحد کے قریب گشت کا اْنہیں کوئی خوف نہیں ہے۔منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے رجب طیب ایردوان نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’’وہ ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ہم آپریشن روک دیں اور پابندیوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ تاہم ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے واضح ہیں۔‘‘اْن کے بقول، ہمیں کسی بھی طرح کی پابندی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ترک صدر کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکی نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو چہارشنبہ کو ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ترک صدر سے ان کی جمعرات کو انقرہ میں ملاقات بھی متوقع ہے۔دوسری جانب روس کے صدارتی دفتر سے چہارشنبہ کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ولادی میر پیوتن اور ترک ہم منصب کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس کے دوران انہوں نے شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور اْنہیں دورہ روس کی دعوت بھی دی ہے۔روسی صدارتی دفتر کے ترجمان دمتری پیسکو نے چہارشنبہ کو پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ترک فوج کی کارروائی سے شام میں سیاسی عمل کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے اور انقرہ کا ایکشن متناسب ہونا چاہیے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ شامی صدر بشارالاسد روس کے قریبی اتحادی ہیں۔ تاہم روس ترکی کے اپنے دفاع کے حق کا احترام کرتا ہے۔ترکی کا مؤقف ہے کہ کردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا مقصد کرد افواج کو سرحدی علاقے سے نکال کر وہاں 32 کلو میٹر کا ایک سیف زون بنانا ہے جہاں شام سے آنے والے 20 لاکھ مہاجرین کو آباد کیا جائے گا۔خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکی فوج کے انخلا کے بعد خالی ہونے والے فوجی اڈوں پر شامی فوج نے کنٹرول سنبھال لیا ہے

شام میں جنگ بندی کیلئے امریکی نائب صدر کا دورہ ٔترکی
واشنگٹن ۔ 16 ۔ اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام ) امریکی نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو چہارشنبہ کے روز ترکی کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔مائیک پینس جمعرات کو ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کریں گے اور شام کی صورت حال پر بات کریں گے۔وائٹ ہاؤس سے منگل کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ترک صدر سے بات چیت میں امریکی نائب صدر شام میں جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے تصفیے پر زور دیں گے۔وائٹ ہاؤس کے مطابق نائب صدر مائیک پینس ترک قیادت تک یہ بات بھی پہنچائیں گے کہ جب تک معاملے کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، صدر ٹرمپ اس عہد پر قائم ہیں کہ ترکی کے خلاف سخت معاشی تعزیرات جاری رکھی جائیں گی۔ترکی کا دورہ کرنے والے وفد میں مائیک پومپیو کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن بھی شامل ہوں گے۔پیر کے روز وزیر مالیات اسٹیو منوشن کے ہمراہ نائب صدر مائیک پینس نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ابتدائی طور پر ترکی کے دفاع، توانائی اور داخلہ کے وزرا پر تعزیرات عائد کی گئی ہیں۔پینس نے کہا کہ ’’امریکہ نے ترکی کو شام میں داخل ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا۔ اس معاملے پر صدر بالکل واضح نکتہ نظر رکھتے ہیں۔