بہار میں تبدیلی کی بَہار… تاریخ کی ریکارڈ رائے دہی
راہول کا ہائیڈروجن بم … ہریانہ میں حکومت چوری کا پردہ فاش
رشیدالدین
’’بہار میں تبدیلی کی بَہار‘‘ جئے پرکاش نارائن کی انقلابی تحریک کی سرزمین پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام نے تبدیلی کی ٹھان لی ہے۔ 243 اسمبلی حلقہ جات میں 121 نشستوں پر پہلے مرحلہ میں رائے دہی مکمل ہوئی اور عوام نے نتیش کمار اور تیجسوی یادو کی سیاسی قسمت کا فیصلہ محفوظ کردیا ہے۔ دوسرے مرحلہ کی رائے دہی 11 نومبر کو ہوگی اور 14 نومبر کو عوام کا فیصلہ منظر عام پر آجائے گا۔ بہار میں انتخابی مہم کے آغاز کے بعد سے دونوں محاذ اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کرنے لگے ۔ ظاہر ہے کہ الیکشن میں آزاد امیدوار بھی اپنی کامیابی کا خواب دیکھتے ہیں ۔ نتیش کمار 20 سال سے چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہیں اور وہ پانچویں میعاد کے بارے میں پرامید تھے لیکن بی جے پی نے مایوس کردیا ۔ ایک تو انتخابی منشور کی اجرائی کے بعد پریس کانفرنس کرنے نہیں دیا گیا اور دوسرے یہ کہ چیف منسٹر کے طور پر نتیش کمار کے نام کا اعلان نہیں ہوا۔ بی جے پی نتیش کمار کو چیف منسٹر بنانے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتی ، لہذا پارٹی نے کہا کہ نومنتخب ارکان اسمبلی نئے چیف منسٹر کا فیصلہ کریں گے ۔ بی جے پی ۔ جنتا دل یونائٹیڈ میں بڑھتی دوریوں کے درمیان پہلے مرحلہ کی رائے دہی ہوئی اور رائے دہی کے رجحان سے بہار میں تبدیلی کا موڈ صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے ۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی نے دوسرے مرحلہ کے رجحان کو طئے کردیا ہے۔ رائے دہی میں نوجوانوں اور خواتین کی غیر معمولی شرکت سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ بہار اب صرف وعدوں سے بہلنے والا نہیں بلکہ نوجوان قیادت کی ضرورت ہے۔ پہلے مرحلہ کی 65 فیصد رائے دہی نے گزشتہ 73 برسوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ بہار کی تاریخ میں پہلی مرتبہ رائے دہندوں نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کی سب سے پسماندہ اور بیمارو ریاست سیاسی طور پر جاگ اٹھی ہے۔ رائے دہندے خاص طور پر نوجوان اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں ۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے فیصد اور رائے دہندوں کے جارحانہ تیور نے بی جے پی ۔ آر جے ڈی اتحاد کے ہوش اڑادیئے ہیں ۔ 121 اسمبلی حلقوں میں رائے دہی کے رجحان سے محسوس ہورہا تھا کہ جنتا دل یونائٹیڈ اور بی جے پی کے ووٹ ایک دوسرے کو منتقل نہیں ہوئے جس طرح کے حلیف اور اتحادی جماعتوں میں ہوتا ہے ۔ ایسے حلقہ جات جہاں جے ڈی یو کے امیدوار نہیں ہیں، وہاں پر جے ڈی یو کا ووٹ مہا گٹھ بندھن کو منتقل ہورہا تھا۔ مبصرین نے آر جے ڈی اور کانگریس کے درمیان بھی ووٹ منتقلی پر شبہات کا اظہار کیا تاہم اس سیاسی جنگ میں جن سوراج پارٹی کے پرشانت کشور بادشاہ گر کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ رائے دہی کے دوران نظم و نسق خاص طور پر پولیس کے رویہ سے ہوا کے رخ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بہار کے پہلے مرحلہ میں نظم و نسق اور پولیس کو نیوٹرل یعنی غیر جانبدار دیکھا گیا۔ بہار کے ڈپٹی چیف منسٹر کو پولیس نے پولنگ اسٹیشن میں داخلہ سے روک دیا۔ دراصل پولیس اور سیول نظم و نسق نے عوام کے ذہن کو پڑھ لیا ہے۔ رائے دہی کا وقت ختم ہونے کے باوجود کئی علاقوں میں طویل قطاروں کا دیکھا جانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ موجودہ حکمرانوں سے برہمی کا اظہار ہے ۔ ہائی وولٹیج رائے دہی کے دوران آر جے ڈی کارکن جارحانہ موڈ میں دکھائی دیئے ۔ شائد وہ ووٹ چوری مخالف مہم سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور پولنگ بوتھس پر بی جے پی ۔ آر جے ڈی کے فرضی ووٹرس کو روکنے کمربستہ ہوچکے تھے ۔ رائے دہی کی تکمیل کے بعد اپوزیشن کا رویہ جارحانہ ہے جبکہ برسر اقتدار اتحاد دفاعی موقف میں دیکھا گیا۔ فیصلہ کی اس پہلی گھڑی میں رائے دہندوں نے یہ طئے کرلیا کہ اقتدار کو بچانا ہے یا پلٹ دینا ہے۔ مبصرین کے مطابق مخالف حکومت لہر سے جے ڈی یو سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہوسکتا ہے ۔ عوام بہار کی پسماندگی کے لئے نتیش کمار سے زیادہ مودی اور امیت شاہ کو ذ مہ دار قرار دے رہے ہیں ۔ نتیش کما ر حکومت کا ریموٹ کنٹرول بی جے پی کے پاس ہے۔ نتیش کمار بہار میں محض ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور صحت کے اعتبار سے بھی وہ عہدہ کے لائق نہیں رہے۔ نتیش کمار دل بدلو کے ماہیر ہیں اور نتائج کے بعد وہ کس کے ساتھ جائیں گے ، اس کی کوئی گیارنٹی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم میں راشٹریہ جنتا دل نے نتیش کمار کو نشانہ نہیں بنایا کیونکہ چاچا برے وقت کا سہارا بن سکتے ہیں۔ پرشانت کشور بھی ذات پات پر مبنی سیاست کے گر اچھے طرح جانتے ہیں اور انہوں نے اسمبلی حلقہ جات میں مختلف طبقات کی آبادی کے اعتبار سے امیدواروں کا انتخاب کیا۔ پرشانت کشور انتخابی تجزیہ نگار کی حیثیت سے بہار میں طبقاتی سیاست کے اعداد و شمار اپنے پاس رکھتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق جن سوراج پارٹی سے بی جے پی کو زیادہ نقصان ہوگا۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے ریکارڈ فیصد پر پرشانت کشور نے تبدیلی کے حق میں عوامی فیصلہ کی پیش قیاسی کی ہے۔ ’’ایک بہاری سب پربھاری‘‘ سے کون واقف نہیں ۔ لیکن کیا واقعی بہاری رائے دہندوں نے خاموشی کے بجائے جارحانہ انداز میں تبدیلی کے حق میں فیصلہ دیا ہے ؟ نتیش کمار اور تیجسوی یادو میں کون کس پر بھاری ہوگا اس کا فیصلہ 11 نومبر کو ہوجائے گا۔ بہار کی انتخابی مہم میں نریندر مودی ۔ امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ نے خوب پسینہ بہایا لیکن ان تینوں کی مہم راہول گاندھی کے مقابلہ پھیکی دکھائی دے رہی تھی۔ نریندر مودی کی جملہ بازی کا بہار میں کوئی خاص جادو نہیں چلا جبکہ امیت شاہ اور ادتیہ ناتھ کی نفرت انگیز تقاریر نے سماج کو بانٹنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ بی جے پی نے بہار میں ووٹ چوری کیلئے ہریانہ سے اپنے کارکنوں کو ٹرینوں میں بھر بھر کر روانہ کیا۔ خصوصی ٹرینوں کے ویڈیوز وائر ہوئے جس میں ہریانہ کے ورکرس کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی نے ٹکٹ کا انتظام کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی مدد سے بی جے پی نے بہار میں ووٹ چوری کے ذریعہ حکومت چوری کا جو منصوبہ تیار کیا ہے ، وہ کس حد تک کامیاب ہوگا ، اس بارے میں مبصرین کو بھی شبہات ہیں۔
بہار کے نتائج قومی سیاست پر اثرانداز ہوں گے اور نئی سیاسی صف بندی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کو اگر شکست ہوجائے تو نریندر مودی کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ بی جے پی نے چیف منسٹر کے عہدہ کے لئے نتیش کمار کا نام نہ لیتے ہوئے اپنی کمزوری کو ظاہر کیا ہے ۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی میں الیکشن کمیشن کی مدد سے ووٹ چوری کے کئی معاملات منظر عام پر آئے۔ اپوزیشن پارٹیوں اور سماجی جہد کاروں نے فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظر ثانی میں دھاندلیوں کا الزام عائد کیا ہے ۔ بی جے پی کے سابق رکن راجیہ سبھا راکیش سنہا دہلی کے کالج میں لکچرر ہیں اور وہ مستقل طور پر دہلی میں سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جاریہ سال فروری میں راکیش سنہا نے اسمبلی چناؤ میں ووٹ دیا تھا اور وہ بہار کے بیگو سرائے میں بھی رائے دہی میں حصہ لیا۔ بی جے پی قائد کے نام دو ریاستوں میں کس طرح موجود ہیں اور الیکشن کمیشن اس پر وضاحت سے قاصر ہے۔ کوئی بھی شخص دو ریاستوں میں ووٹ کا استعمال نہیں کرسکتا۔ بی جے پی کے بعض دیگر قائدین نے دہلی کے بعد بہار میں رائے دہی سے متعلق اپنی تصاویر کو سوشیل میڈیا میں وائرل کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فہرست رائے دہندگان کو نقائص سے پاک بتایا لیکن دو ریاستوں میں نام کی موجودگی سے ووٹ چوری کا الزام درست دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف راہول گاندھی نے آخر کار ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کرتے ہوئے ہریانہ میں ووٹ چوری کے ذریعہ حکومت چوری کو بے نقاب کیا۔ مہاراشٹرا ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے بعد راہول گاندھی نے بہار میں فہرست رائے دہندگان میں بے قاعدگیوں کے ثبوت عوام کے روبرو پیش کئے ہیں۔ ہریانہ میں 25 لاکھ فرضی ووٹرس کو شامل کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کو اقتدار سے روک دیا گیا ۔ ہریانہ میں اسمبلی چناؤ سے پہلے 3.5 لاکھ ایسے نام کاٹ دیئے گئے جنہوں نے لوک سبھا انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ بی جے پی نے کئی ریاستوں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے حامیوں کے نام فہرست سے حذف کروادیئے ۔ الیکشن کمیشن دراصل بی جے پی کی محاذی تنظیم میں تبدیل ہوچکا ہے۔ 2019 کے بعد سے بی جے پی نے الیکشن کمیشن کو عملاً یرغمال بنالیا اور کئی ریاستوں میں واضح رجحان کے باوجود کانگریس کو برسر اقتدار آنے سے روک دیا گیا ۔ راہول گاندھی کا ہائیڈروجن بم بہار کی پہلے مرحلہ کی رائے دہی سے ایک دن قبل پھٹا ہے جس کا اثر رائے دہی پر دکھائی دیا۔الیکشن کمیشن نے 12 ریاستوں میں فہرست رائے دہندگان پر نظر ثانی کا عمل شروع کردیا ہے جو دراصل کیرالا ، مغربی بنگال اور ٹاملناڈو میں اپوزیشن حکومتوں کا صفایا کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ نریندر مودی اینڈ کمپنی کی سرگرمیوں پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
ترے غرور نے تجھ کو یہ دن دکھایا ہے
تری شکست ترے آس پاس بیٹھی ہے