تشدد پر اُکسانے والا چیف منسٹر

   

پروفیسر ایوروانند
آج کل چیف منسٹر آسام کے بہت چرچے ہیں۔ ایسا لگتا ہیکہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے خبروں میں اور سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں اپنے زہریلے بیانات دیئے ہیں جس پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہیکہ انہوں نے عہدہ چیف منسٹری پر برقرار رہنے کا حق کھودیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مسلمانوں کے خلاف ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف شرانگیز بیانات جاری کرتے ہیں۔ ان کی حکومت میں صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف قوانین منظور کئے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف مختلف بہانوں سے کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ہیمنتا بسوا سرما نے اپنے اشتعال انگیز و نفرت انگیز بیانات کے ذریعہ آسام کے مسلمانوں خاص کر میاں مسلمان کو بڑے خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ آج آسام میں مسلمان بہت زیادہ خطرہ میں ہیں۔ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مسلمانوں کے تئیں ان کی نفرت اور تشدد سرما کے بیانات اور فیصلوں میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ بی جے پی کے دوسرے کئی لیڈروں نے اس قسم کے نفرت اور تشدد کا اظہار کیا ہے لیکن گزشتہ 10 برسوں میں بی جے پی میں اس قسم کے لیڈروں کی تعداد جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اپنی نفرت نہیں چھپاتے اور کھلے عام فرقہ پرستی پر مبنی بیانات دینے میں ذراسی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، بہت زیادہ ہوگئی یعنی ان کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مودی نے آخر ایسی زہریلی تقاریر کیوں کی؟ مسلمانوںکو نشانہ کیوں بنایا؟ مودی کی تقاریر نہ صرف غیرمہذب تھیں بلکہ خطرناک بھی تھیں کیونکہ ان کا ہر بیان مسلمانوں کے تئیں ہندوؤں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اور نفرت کو گہرا کرتے جارہا تھا اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کا باعث بھی بنا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اس قسم کی نفرت انگیز تقاریر وہ بھی ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے کی جاتی ہیں تو یقینا اس کے عواقب و نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں تھا کہ مودی کی جانب سے زہر اگلنے کے تازہ مرحلہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ پچھئے دس برسوں میں ان ہندوؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا جو آر ایس ایس سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ بہت کم عمر یا نوجوان ہیں پھر بھی مسلمانوںکو ہجومی تشدد کے ذریعہ نشانہ بنارہے ہیں، مسلمانوں کا قتل کررہے ہیں، ان پر حملے کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف مودی، ان کے وزراء اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے لیڈران نفرت انگیز پروپگنڈہ میں دن رات مصروف ہیں اور ان کا نفرت انگیز پروپگنڈہ یقینا موجودہ صورتحال کیلئے ذمہ دار ہے حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں ہیکہ ایک دستوری عہدہ پر فائز شخص نہیں کرسکتا۔ اصل میں یہ ایک جرم ہے۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما کی وہ ہندوؤں میں مسلم مخالف جذبات بھڑکانے کے معاملہ میں مودی اور دوسرے بی جے پی قائدین سے مسابقت کررہے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ بسوا سرما کے سیاسی کیریئر کا آغاز آر ایس ایس سے نہیں ہوا بلکہ انہوں نے کانگریس سے برسوں وابستہ رہ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اس لئے وہ اس بات کوثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ مسلمانوں پر انتہائی شرمناک اور خطرناک انداز میں حملہ کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز و اشتعال انگیز بیانات کے معاملہ میں آر ایس ایس اور بی جے پی لیڈران بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی بی جے پی میں اعلیٰ مقام پر پہنچنے کا آزمودہ اور آسان طریقہ نریندر مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ کا عروج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو کچھ بھی ہو آسام کے مسلمان ہیمنتا بسوا سرما کے کیریئر کی قیمت ادا نہیں کرسکے وہ اس کا خمیازہ نہیں بھگت سکتے۔ آج بی جے پی کی دو حلیف جماعتیں جنتادل (یو) اور لوک جن شکتی پارٹی چیف منسٹر آسام پر ان کے اشتعال و نفرت انگیز بیانات کیلئے تنقید کرنے پر مجبور ہیں ان دونوں جماعتوں نے آسام کی قانون ساز اسمبلی میں نماز جمعہ کیلئے برسوں سے دیئے جانے والے دو گھنٹوں کے وقفہ کو برخاست کرنے سے متعلق ریاستی بی جے پی حکومت کے فیصلہ پر نکتہ چینی کی۔ بسوا سرما کہتے ہیں کہ یہ انگریز نوآبادیات کی دین تھی، اس لئے اسے منسوخ کردیا گیا۔ جنتادل (یو) اور لوک جن شکتی پارٹی کا کہناہیکہ یہ ہندوستان کے سیکولر کلچر اور دستور کی روح کے منافی ہے۔ کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہیکہ یہ جماعتیں اپنے مسلم رائے دہندوں کے جذبات کو لیکر فکرمند ہیں اسی لئے وہ ہمنتا بسوا سرما پر تنقید کررہی ہیں۔ ان کے اقدامات کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں۔ ویسے بھی ہر سیاسی جماعت کو معاشرہ کے تمام طبقات کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہیمنتا بسوا سرما کو مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ کوئی فخر کی بات نہیں۔ وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف بکواس کررہے ہیں۔ ہر کسی کو ان کی وہ بات یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ (سرما) کو میاں مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک جمہوریت میں سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں اور چاہیں گی کہ سماج کے تمام طبقات ان کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں۔ ہیمنتا بسوا سرما نے کھلے عام کہا ان کی ریاست کی اکثریت میں مسلمانوں کا خیرمقدم نہیں ہے۔ آپ کو بتادیں کہ آسام کی اپوزیشن جماعتوں نے پولیس میں چیف منسٹر آسام کے خلاف شکایت درج کروائی کیونکہ انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ وہ میاں مسلم کو آسام میں اقتدار پرفائز ہونے نہیں دیں گے اور انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ مسلمانوں کیلئے کھلی دھمکی ہے۔ اس سے پہلے بھی ہیمنتا بسوا سرما نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ حد تو یہ ہیکہ ہیمنتا بسوا سرما یونیورسٹی آف سائنس و ٹکنالوجی میگھالیہ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کیونکہ اسے ایک مسلمان نے قائم کیا۔ یہ یونیورسٹی آسام کی سرحد سے متصل میگھالیہ کے ایک پہاڑی علاقہ میں قائم کی گئی۔ ہیمنتا بسوا سرما کے مطابق اس یونیورسٹی کے باعث آسام میں سیلاب آرہا ہے۔ انہوں نے اسے سیلاب جہاد کا نام دیا ہے۔ آسام میں ہر کوئی جانتا ہیکہ چیف منسٹر اس یونیورسٹی کو اس لئے نشانہ بنارہے ہیں کیونکہ اس کے بانی مالک اور چانسلر بنگالی زبان بولنے والے آسامی مسلمان محبوب الحق ہیں۔ سرمایہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کی اس لئے مخالفت کررہے ہیں کیونکہ اسے ایک مسلمان نے قائم کیا ہے۔ وہ مسلم سبزی فروشوں کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاست میں ان لوگوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کے مکانات، دوکانات کو مسلسل منہدم کیا جارہا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی زمینات چھین کر آسام کے حقیقی باشندوں کے حوالے کریں گے۔ غرض اس طرح کی بکواس کسی چیف منسٹر کو زیب نہیں دیتا۔ دوسری طرف مسلم مخالف مودی سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ چیف منسٹر آسام کو اس قسم کی اشتعال انگیزی سے روکیں گے۔