تعلیمی اداروں کو اپنا یونیفارم طے کرنے کا اختیار:سپریم کورٹ

,

   

حجاب ،یونیفارم سے الگ، درخواستوں کی سماعت پر عدالت عظمیٰ کا تبصرہ

نئی دہلی :سپریم کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف داخل درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے آج انتہائی اہم تبصرہ کیا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے کہا کہ اصول کے مطابق تعلیمی اداروں کو اپنا یونیفارم طے کرنے کا اختیار ہے، اور حجاب یونیفارم سے الگ ایک چیز ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ حجاب پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچیں طالبات اور دیگر لوگوں کے لیے مایوس کن کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہی دلیل کرناٹک کے اس اسکول نے بھی پیش کی تھی جہاں سب سے پہلے حجاب کا معاملہ اٹھا تھا۔ بہرحال، حجاب تنازعہ کو لے کر سپریم کورٹ میں سماعت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور آئندہ پیر کو بھی یہ سماعت جاری رہے گی۔اس سے پہلے اسکول یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کو لے کر سامنے آئے تنازعہ اور اب کورٹ میں جاری حجاب کیس کو لے کر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ یہ معاملہ آئینی بینچ کو بھیجا جانا چاہئے۔سبل نے کہا تھا کہ یہ مطالبہ اس لئے اہم ہے، کیونکہ یہ اختیار کا معاملہ ہے کہ میں کیا پہنوں یا نہ پہنوں۔ وہیں حجاب معاملہ میں طالبہ کی طرف سے پیش وکیل کالن گونزالویز نے کہا کہ جب سکھوں کو کرپان رکھنے کی آزادی ہے، پگڑی پہننے کو منظوری دی گئی ہے اور جب کرپان اور پگڑی کو آئینی تحفظ دیا جاسکتا ہے تو پھر حجاب میں کیا پریشانی ہے ؟۔کپل سبل نے کہا کہ قانون اظہار رائے کی آزادی پر تب تک پابندی نہیں لگا سکتا جب تک کہ وہ امن یا اخلاقیات اور شائستگی کے خلاف نہ ہو۔ کرناٹک میں ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، جس سے ریاست کیلئے آئین کے خلاف مداخلت کرنے کی صورت پیدا ہوئی ہو۔وہیں طالبہ کی جانب سے پیش وکیل کالن نے کہا کہ جب پہلے بھی دیگر کو تحفظ دیا گیا ہے تو اب اسی تحفظ کو حجاب تک کیوں نہیں بڑھایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا آئیں ایک زندہ دستاویز ہے۔ یہ وقت اور حالات کے حساب سے ترمیم ہوتا ہے۔ وکیل پرشانت بھوشن نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب اسکولوں میں پگڑی، تلک اور کراس کو روکا نہیں کیا گیا تو پھر حجاب پر پابندی کیوں؟ یہ صرف ایک مذب کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔