رام پنیانی
تعلیمی نصاب کو معقول بنانے یا اس کی معقولیت کے نام پر سی بی ایس سی (CBSC) نصاب سے کئی عنوانات کو حذف کردیا گیا (اپریل 2022ء)۔ یہ عنوانات سی بی ایس سی دسویں جماعت سے حذف کئے گئے ہیں۔ جو عنوانات (اَسباق) حذف کئے گئے ہیں، ان میں جمہوریت اور تنوع ، آفریقہ ۔ ایشیائی اسلامی ریاستوں کا عروج، مغل درباروں کی تاریخ ، غیرجانبدارانہ تحریک ، زرعی شعبہ پر عالمیانے کے اثرات، مقبول ترین جدوجہد اور تحریکیں شامل ہیں جبکہ فرقہ واریت اور جمہوریت کو درپیش چیلنجس کے سیکشن میں فیض احمد فیضؔ کی نظموں کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ سی بی ایس سی دراصل ’’سنٹرل بورڈ فار سپریزنگ ایجوکیشن‘‘ ہے۔ انہوں نے اس طرح کی پالیسیوں کے پیچھے کارفرما آر ایس ایس کے بارے میں کہا کہ یہ راشٹریہ شکھشا شریدھر ہے۔ واضح رہے کہ آل انڈیا ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف دستخطی مہم شروع کی ہے جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس کے بڑے اور اہم مقاصد میں سے ایک ملک کی تعلیمی پالیسی اور اپنی نسلی قوم پرستی کے مطابق تعلیمی نصاب اور تعلیمی پالیسی کو تبدیل کرنا رہا ہے۔ اس حکومت نے سائنسی نقطہ نظر کو فروغ دینے کی بجائے مذہبی یا عقیدہ پر مبنی تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ سماجی اور تاریخی مسائل کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب 1998ء میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے اقتدار میں آئی ، اُس وقت ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو وزیر فروغ انسانی وسائل مقرر کیا گیا۔ انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تاریخی واقعات کو فرقہ وارانہ زاویہ سے متعارف کروانے کیلئے تاریخ کی کتابوں کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پروہتیہ (پجاریوں کا دستی فن) اور کرماکنڈ (مذہبی رسومات) متعارف کروایا حالانکہ سائنسی علم نجوم، اِسٹرولوجی یا علم فلکیات سکھانا شروع کرنے کی بجائے پروہتیہ اور کرماکنڈ(مذہبی رسومات) متعارف کروایا۔ اس معاملے میں ایک دلچسپ صورتحال ہے۔ علم نجوم میں ’زحل‘ کو سورج کے ایک سیارہ کی حیثیت سے پڑھایا گیا۔ علم نجوم میں ’زحل‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔ حیاتیاتی طور پر سمجھنے کے برخلاف کسی بچے کے جنس کا تعین ایکس یا وائی کروموزمس سے کیا جاتا ہے جو باپ سے منتقل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولادِ نرینہ حاصل کرنے کیلئے پترا کامیشتی یگنہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس یگنہ کی اہمیت یہ کہتے ہوئے بڑھا دی گئی کہ اس کے اہتمام سے اولادِ نرینہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ طریقہ اب بھی جاری ہے اور آر ایس ایس جیسی تنظیم پہلے ہی شکھشا سنسکرتی اُٹھان نیاس قائم کرچکی ہے جو سنگھ پریوار کی سرپرست تنظیم سے ملحقہ ہے چنانچہ مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کے اثر و رسوخ کے ساتھ مہم چلانے کیلئے این سی ای آر ٹی (NCERT) پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ انگریزی، اُردو اور عربی الفاظ کو حذف کردے۔ اس سلسلے میں نصاب میں رابندر ناتھ ٹیگور کی سوچ و فکر اور ان کے تصورات کو ممتاز مصور ایم ایف حسین کی سوانح حیات سے اخذ کئے جانے کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ان خیالات کو مغل حکمرانوں کو ’خیرخواہ بادشاہوں‘ کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے جبکہ بی جے پی کو ایک ہندو پارٹی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے جو سفارشات این سی ای آر ٹی کے نصاب سے حذف کیلئے پیش کئے ہیں، ان میں یہ ایک جملہ ہے کہ 2002ء گجرات فسادات میں تقریباً 2,000 مسلمان مارے گئے۔ سنگھ پریوار اس بات کا بھی مخالف ہے کہ 1984ء فسادات کیلئے سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جانب سے کی گئی معذرت خواہی کو بھی حذف کیا جائے۔ یہ دراصل آر ایس ایس کے ایک ہی ایجنڈہ کا تسلسل ہے جو ہندو راشٹر سے متعلق اس کے مقصد کیلئے کام کررہا ہے۔ بی جے پی حکومت میں یہ بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ تعلیم کو ہندوستانی رنگ میں رنگا جائے چنانچہ حکومت کے دباؤ میں کئی ناشرین نے بھی اپنے سر جھکا دیئے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال ’پینگوین‘ کی ہے جس نے وینڈی ڈونیگر کی کتاب ’’دی ہندوز‘‘ شائع کی اور یہ ایک علمی کام تھا جس میں ہندوؤں کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ خاص طور پر دلتوں اور خواتین کی حالت زار کا جائزہ لیا گیا۔ اس شعبہ میں آر ایس ایس کے ایک لیڈر دیناناتھ یاترا بہت زیادہ سرگرم ہیںاور انہوں نے اسکولی بچوں کیلئے بے شمار کتابیں تیار کی ہیں یعنی اسکولی بچوں کیلئے انہوں نے کافی کتابیں لکھی ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گجرات کے 42,000 اسکولوں میں اُن کی کتابیں متعارف کروائی گئیں اور اس سے پہلے ان کتابوں کا گجراتی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔
ان کتابوں میں پیش کردہ نصاب کا نمونہ ان چیزوں کو نمایاں کرتا ہے جیسے قطب مینار جیسی تاریخی عمارت ایک ہندو یادگار تھی جسے وشنو اِستمبھ کیا جاتا تھا اور اس کی تعمیر قطب الدین ایبک نے نہیں بلکہ سمدر گپتا نے کروائی۔ اس طرح کی کتابیں دراصل ملک میں پائی جانے والی ہم آہنگی کی روایات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتی ہیں اور بادشاہوں کے مذہب کی نظروں سے بادشاہوں کو پیش کرتی ہیں۔ ان کتابوں کا مقصد اور توجہ اس بات پر مرکوز کرواتا ہے کہ بیرونی مسلم حکمرانوں نے مقامی ہندوؤں پر مظالم ڈھائے، اسی نقطہ نظر سے مغل حکمرانوں کو پیش کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان مغل بادشاہوں نے ہندوؤں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا حالانکہ یہ سچ نہیں ہے۔ اسکولی نصاب پر اثرانداز ہورہے عناصر کی یہی کوشش ہے کہ نصاب سے مغلوں اور مسلم حکمرانوں کے ذکر ان کی کہانیوں، ان کی داستانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حذف کردیا جائے چنانچہ اب نئی اسکیم کے تحت مغل درباروں اور ان کے نمونے مکمل طور پر ختم انداز میں جائیں گے جبکہ تاریخ کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینے پر ہمیشہ پتہ چلتا ہے کہ مغل بادشاہوں کے بااعتماد رفقاء و مددگاروں ہندو شامل تھے، جیسے کہ مغل بادشاہ اکبر کے ساتھ مان سنگھ ، اورنگ زیب کے ساتھ راجہ جئے سنگھ وغیرہ چھوٹی مثالیں ہیں۔ ان کتابوں میں محمود غزنوی اور محمد غوری کو کلیدی ویلن کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ محمود غزنوں کی فوج میں بے شمار ہندو جرنیل خدمات انجام دیتے تھے۔ ان میں تلک، سوندھی، ہرزان اور رائے اور ہند شامل ہیں۔ اس کے برعکس ان کتابوں میں شیواجی اور رانا پرتاپ کو اصل ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ شیواجی کے بااعتماد معتمد مولانا قیصر علی تھے جبکہ رانا پرتاپ کے اہم جرنیلوں میں حکیم خاں سوری جیسے مسلمان شامل تھے۔
بی جے پی نے نصاب میں جو پریشان کن تبدیلیاں لائی ہیں، وہ دراصل ایک ایسی تاریخ کی تعمیر ہے جو اس کی ہندو قوم پرستی کیلئے بالکل موزوں ہو، گاندھی جی کی (ہند سوراج) اور پنڈت نہرو کی (ڈسکوری آف انڈیا) نے ہندوستان کی تاریخ دی ہے جو شمولیاتی نوعیت کی تھیں اور اس سے ابھرتی قومی تحریک کا اظہار ہوتا تھا۔ ہند سوراج اور ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں ہندوستانی قوم کو ہندوستانی قوم پرستی کا تصور دیا گیا تھا جبکہ بی جے پی ہندوستانی قوم پرستی کی تاریخ کو مسخ کرکے ہندوتوا قوم پرستی کی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی نے تعلیمی شعبہ میں جو تبدیلیاں لائی ہیں، اس کے ناقدین اسے تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ابتداء میں بی جے پی اینڈ کمپنی نے ان تنقیدوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس تنقید کا جواب دیا۔ بعد میں ان لوگوں نے جارحانہ انداز میں کہا کہ نصاب کو زعفرانی رنگ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے زور دے کر کہا کہ نصاب کو زعفرانی بنانے کی ضرورت ہے۔
موجودہ تبدیلیاں جو آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی تنظیموں کے سیاسی تقاضوں و مقاصد میں ہم آہنگ ہیں جبکہ مغل دربار ہندو۔ مسلم اتحاد کی ایک روشن مثال تھی۔ اس لئے بی جے پی کی اسکیم میں جگہ نہیں پاسکی ۔اسی طرح برصغیر کے ممتاز اُردو شاعر فیض احمد فیض جو ایک جمہوریت پسند اور سکیولر شخصیت تھے، انہیں ادب کے نوبل انعام کیلئے بھی نامزد کیا گیا تھا، وہ ترقی پسند جمہوری اقدار اور ادب کیلئے ایک مثالی نمونہ تھے چونکہ وہ پاکستانی تشخص کے حامل تھے، اس لئے حکمراں جماعت کے لوگوں نے انہیں بھی نصاب سے حذف کرنا مناسب سمجھا۔
فی الحال حکومت کا ایک مقصد ملک کے پہلے وزیراعظم اور جدید ہندوستان کے معمار پنڈت جواہر لال نہرو کے مقام و مرتبہ کو کمزور کرنا یا گھٹانا ہے جو جمہوری اور سکیولر اقدار کے تئیں اپنی وابستگی کیلئے پوری مضبوطی سے کھڑے تھے۔ عالمی منظر نامہ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ غیرجانبدارانہ تحریک کا نظریہ پیش کرنا اور غیرجانبدارانہ تحریک کا قیام ہے۔ اس تحریک نے دنیا کی نئی عالمی صف بندی کو ایک نئی سمت عطا کی۔ اس نے سرد جنگ کے باوجود ہندوستان کو دنیا کے مختلف کیمپوں (ممالک کے کیمپوں) سے تعاون و اشتراک کو فروغ دینے میں مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے غیرجانبدارانہ تحریک کو بھی تعلیمی نصاب سے حذف کردیا ۔
موجودہ حکمراں جماعت اور اس کا نظریہ ملک کو آمرانہ فرقہ وارانہ ریاست کی جانب ڈھکیلنا چاہتے ہیں جہاں جمہوریت کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس کا مقصد ہندوستان کی تکثیریت، تنوع اور اس کی ثقافت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنا ہے۔