تفویض طلاق خلع جیسے مسائل کا حل

   

محمد اسد علی ، ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں کثرت سے طلاق اور خلع کے واقعات ہورہے ہیں۔ شوہر اور بیوی میں اختلافات ایک عام بات ہوچکی ہے۔ میاں اور بیوی دونوں کی مرضی سے زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اگر شوہر یا بیوی ضدی اور تیز مزاج ہو یا دونوں میں سمجھوتہ نہ ہو تو طلاق یا خلع کا معاملہ یقینی ہوجاتا ہے اور اگر بیوی علیحدہ ہونا چاہے تو وہ اس وقت تک طلاق یا خلع حاصل نہیں کرسکتی جب تک شوہر رضامندی کا اظہار نہ کرے اور اس طرح سے دونوں میں کشیدگی برقرار رہے تو ایسی صورت میں اگر اولاد ہو تو اس کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے کیونکہ ماں باپ کی موجودگی اولاد کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ اگر بیوی شوہر سے ناراض ہو تو خلع لے سکتی ہے لیکن بہت سے معاملات میں بعض شوہر کی جانب سے منظوری نہ دیئے جانے کی وجہ سے عورت کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور وہ انتہائی کسمپری کی زندگی گزارتی ہے اور اسے بے سہارا اور معلق چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر شوہر طلاق نہ دے تو ایسی صورت میں بیوی دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ یہ بات عام طور پر سمجھی ہوئی ہے کہ خلع کیلئے بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ اسلام میں عورت کو مجبور نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اسے بھی اختیار فراہم کیا گیا ہے۔ اگر میاں بیوی میں اختلافات اور لڑائی جھگڑا ہو تو ایسی صورت میں شریعت نے اس بات کی گنجائش فراہم کی ہے کہ عورت مرد کے رحم و کرم پر نہ ہو بلکہ اسلام جیسے آفاقی مذہب میں خواتین کے حقوق کو سربلند رکھنے کیلئے ایک ایسا راستہ فراہم کیا ہے جو خواتین کی بے بسی اور ان کے استحصال کو ختم کرسکتا ہے۔ تفویض کے معنی سپرد کرنے کے ہیں اور کسی چیز کے سپرد کرنے کا حق اس شخص کو ہوتا ہے جس کے پاس وہ حق موجود ہو۔ یہ معاملہ کیونکہ طلاق سے متعلق ہے اور طلاق کا اختیار شرعاً مرد کو حاصل ہوتا ہے، اس لئے اگر بوقت ضرورت شوہر اپنی بیوی کو طلاق کا یہ اختیار سپرد کردے تو بیوی کے پاس بھی اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار اور قوت آجاتی ہے اور یہ قوت شوہر کے اختیار دینے پر منحصر ہے چنانچہ وہ ایک طلاق کا اختیار دے تو ایک دو کا اختیار دے تو دو اور اگر تین طلاقوں کا اختیار اسے دے تو وہ تین طلاقیں بھی اپنے اوپر واقع کرسکتی ہے۔ شریعت میں طلاق دینے کا اصل اور مستقل اختیار مرد کو حاصل ہے لیکن اگر مرد چاہے تو اپنا یہ اختیار بیوی کو یا کسی دوسرے شخص کو منتقل کرسکتا ہے۔ اس کو فقہی اصطلاح میں ’’تفویض طلاق‘‘ کہتے ہیں۔ ضرورت یا مصلحت کے وقت بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کا ثبوت اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ناگواری کی وجہ سے ایک مہینے تک ازدواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی تھی جس کے بعد یہ آیات نازل ہوئی: ائے پیغمبر! آپ اپنے بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور یہاں کی رونق چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلاکر اچھی طرح سے رخصت کردوں اور تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر میں کامیابی چاہتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکوکار عورتوں کے لئے بڑا اجر و ثواب تیار کررکھا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر لڑکی والے یہ اندیشہ ظاہر کرے کہ نکاح کے بعد شوہر، لڑکی کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرسکتا ہے۔ شریعت میں یہ گنجائش ہے کہ نکاح سے پہلے شوہر سے ایک اقرار نامہ لکھوالیا جائے اور اس پر شوہر کے دستخط لئے جائیں اور گواہ بھی بنالئے جائے اور آپسی رضامندی سے طئے شدہ شرطیں تحریر کردی جائے۔ اس پیشگی تفویض طلاق کیلئے نکاح کی طرف نسبت کی شرط ضروری ہے یعنی یہ لکھنا یا کہنا ضروری ہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں اور پھر شرط کی خلاف ورزی کروں، اگر یہ الفاظ نہ کہے گئے تو یہ اقرار نامہ کالعدم ہوجائے گا۔ (الطلاق)
تفویض طلاق کا اصل مقصد شادی شدہ خواتین پر مظالم کا انسداد ہے اور ساتھ ہی ساتھ شوہر کی بدسلوکی کو ختم کرنا ہے کیونکہ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت انصاف کو دی گئی ہے اور اگر شوہر ظلم کرتا ہے اور بیوی برداشت کرتے رہے تو یہ انصاف کے خلاف ہوگی۔ شریعت میں اس کیلئے سارے مسائل کا حل موجود ہے۔ ان حالات میں ایک بہترین حل یہ ہے کہ تفویض طلاق کی تکمیل نکاح سے قبل کرلی جائے تاکہ بعد میں لڑکی یا عورت کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو کیونکہ اسلام میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے اور اس پر عمل کیا جائے تو لڑکی کو عدالت سے رجوع ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی وقت اور پیسہ بھی ضائع نہیں ہوگا۔ طلاق تفویض کے سلسلے میں جامعہ نظامیہ کے ایک فقہی صاحب قبلہ شیخ الفقہ مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی قادری کی شائع کردہ کتاب بعنوان ’’تین طلاق اور یونیفارم سیول کوڈ‘‘ جس کے صفحہ نمبر 29 اور 31 میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اسلام میں لچک رکھی ہے اور اس کے قانون کو لچکدار بنایا ہے لہٰذا ایسی مشکل صورتحال میں فقہاء کرام کے بیان کردہ تفویض طلاق کے مطابق جن مقامات پر دارالقضاء فسخ نکاح کی صورت پیدا نہ ہورہی ہو تو عقد نکاح کے موقع پر عاقدہ کی طرف سے یا عاقدہ کے وکیل کی طرف سے عقد نکاح سے قبل تفویض طلاق کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یعنی شوہر حقوق ادا نہ کرنے کی صورت میں عورت خود اپنے اوپر طلاق واقع کرلینے کی شرط مقرر کرسکتی ہے لہذا تفویض طلاق سے استفادہ کرتے ہوئے ’سیاہ نامہ‘ میں طلاق کے نام سے لازمی یا اختیاری خانہ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے جس میں یہ وضاحت ہو کہ عاقدہ یا اس کا وکیل اس شرط پر عقد نکاح کرتے ہیں کہ عورت کو اس کے حقوق نہ ملنے کی غیرمعمولی صورت میں مذکورہ تمام شرائط کے تحت طلاق کا اختیار حاصل رہے گا۔ اس طرح ہزاروں، لاکھوں عورتیں ظالم شوہروں کے شکنجے سے نکل کر بعد ختم مدت کسی اور شخص سے شرعی طریقہ پر نکاح کرسکتی ہے لہٰذا ان حالات میں عورتوں کے مسائل کے علاوہ مردوں کیلئے بھی ان کی شکایات کے ازالہ کیلئے تفویض طلاق ایک بہترین ہتھیار ہے، اس سے مظلومین کے ساتھ انصاف بھی ہوگا۔ مزید تفصیلات کیلئے فون 9959672740 پر ربط کرسکتے ہیں۔