تقسیم ِہند کی ہولناکی اب کیوں یاد آرہی ہے ؟

   

رام پنیانی
ہندوستان کی تقسیم بیسویں صدی کی دنیا کے بڑے سانحات میں سے ایک سانحہ تھی۔ دنیا میں ایسے چند المناک واقعے پیش آئے جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے اور جانیں بچانے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی یعنی ہجرت کی۔ تقسیم ہند کے المیہ یا سانحہ کے زخم ابھی تک مکمل طور پر مندمل نہیں ہوئے، لیکن لوگ قوم پرستی کے بدلتے رنگ میں رنگنے لگے اور پھر ایک ایسا وقت آیا کے قوم پرستی کے نعرے گونجنے لگے، تاہم ان نعروں کے پیچھے کچھ اور ہی اغراض و مقاصد پوشیدہ ہیں۔ ہندوستان ویسے تو بے شمار مسائل کا سامنا کررہا ہے اور اس بیچ نریندر مودی نے اعلان کیا کہ 14 اگست کو جو یوم آزادی سے چوبیس گھنٹے پہلے کا دن ہے، اب سے تقسیم کی خوفناک یادوں کو تازہ کرنے کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم 15 اگست کو برطانوی سامراج سے آزادی کا دن مناتے ہیں اور وہ دن ایسا ہے جب ہم نے اُخوت، مساوات اور آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کی بنیاد کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سمت سفر شروع کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی پانے کیلئے اور یوم آزادی کا دن دیکھنے کیلئے کئی خاندانوں نے مشکلات کا سامنا کیا۔ بے شمار قربانیاں پیش کیں، اپنے عزیز و اقارب کو کھویا، اُن لوگوں نے جس طرح کی مصیبتوں کو جھیلا اور پریشانیوں کا سامنا کیا، ان کی یادوں کو تازہ کرنا ایک بہت بڑا کام ہے اور یہ کام کئی لوگوں نے بہت ہی خوبصورتی سے انجام دیا ہے۔ تقسیم ملک کے قصے کہانیوں کو کتابوں میں خصوصی طور پر جگہ دی گئی۔ ایسی بے شمار کتابیں ہیں جن میں درد ناک اور متاثرکن انداز میں بتایا گیا کہ تقسیم ہند کی مصیبتوں کا سب سے زیادہ منفی اثر خواتین پر پڑا۔ تاریخی کتابوں میں ایسے ہزاروں لاکھوں صفحات ہیں جو تقسیم کے وقت پیش آئے انسانی سانحہ کی المناک یادوں کو تازہ کردیتے ہیں۔ تقسیم ہند کے سات دہوں کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ دراصل ایسا لگتا ہے کہ ان زخموں کو چھڑکتے ہوئے اسی طرح کا کھیل کھیلا جائے جس طرح انگریز نوآبادیات کے ذریعہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے ساتھ انگریزوں نے کھیلا تھا اور انگریز نوآبادیات کے باعث ہی تقسیم ہند کا خوفناک المیہ پیش آیا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے تقسیم ہند کی تلخ یادوں کے حوالے سے دن منانے کا اعلان آخر کیوں کیا گیا۔ یہ ایسا سوال ہے کہ کیا کھیل کھیلا گیا۔ اس سوال کے بارے میں کئی جواب سامنے آئے۔ جوابات میں سے ایک جواب بی جے پی لیڈر اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری برائے تنظیم کے ایک ٹوئٹ سے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا اعلان نہرو کی وراثت کو جاری رکھنے والوں کی جانب سے فراموش کردہ المیہ کی یاد کو دوبارہ تازہ کرنے کی ایک قابل ستائش کوشش ہے۔ دراصل بی جے پی قائد نے ایک طرح سے تقسیم ہند کے سانحہ کو نہرویائی وراثت سے تعبیر کیا ہے۔
وزیراعظم کے اس اعلان کا دوسرا مقصد بی جے پی لیڈر ہردیپ سنگھ پوری کے بیان سے منظر عام پر آتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ تقسیم ملک کو ایک ایسا سبق سمجھنا چاہئے جس کے تحت ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہئے اور ہندوستان کو ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘‘ کی راہ پر گامزن کرنا چاہئے، نہ کے کسی کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ خاص طور پر ہمارے پڑوس میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ ماضی میں کبھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ جس طرح بی جے پی حکومت نے تقسیم ملک کیلئے نہرویائی وراثت اور مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کو ذمہ دار قرار دیا گیا، اُسے سوشیل میڈیا کے اس دور میں اگرچہ بہت زیادہ مقبول عام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے بیانات اور الزامات حقیقت سے بعید ہیں۔ کانگریس کے سب سے طویل میعاد تک صدر رہنے والے مولانا ابوالکلام آزاد نے آخری وقت تک تقسیم ملک کی شدت سے مخالفت کی۔ کانگریس سنٹرل کمیٹی کے کئی ایسے قائدین تھے جنہوں نے بہت پہلے ہی تقسیم کا مطالبہ کردیا تھا۔ مثال کے طور پر راج گوپالا اچاری اور دوسرے قائدین جنہوں نے یکے بعد دیگرے اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ برصغیر کو خانہ جنگی جیسی صورتحال سے بچانے کیلئے تقسیم کے سواء کوئی اور چارہ کار نہیں، لہذا خانہ جنگی سے بچنے اور عصری خطوط پر ملک کی تعمیر شروع کرنے کیلئے مجبوراً ملک کی تقسیم کا فیصلہ لینا پڑا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس کی اعلیٰ قیادت کے سامنے اپنی تجویز رکھی، وہ سردار پٹیل ہی تھے، جنہوں نے پنڈت نہرو کے سامنے اس تجویز کو فوری قبول کیا اور مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب “India’s Wins Freedom” میں اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور مولانا آزاد جیسے بلند قامت اور تقسیم ملک کے کٹر مخالف کی کتاب میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز اور اسے سردار پٹیل کی جانب سے قبول کرنے کا حوالہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک خوشامدکا سوال ہے فرقہ پرست عناصر نے کانگریس پر ابتداء ہی سے جب انڈین نیشنل کانگریس قائم کی گئی تھی، مسلمانوں کی خوشامد کا الزام عائد کیا۔ واضح رہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے ساتھ ہی بدرالدین طیب جی جیسے قابل ترین قائد نے کانگریس کی صدارت کیتھی ۔
جبکہ ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو تقسیم ملک کا ذمہ دار قرار دیا۔ فرقہ پرست ، گاندھی جی کا یہ کہتے ہوئے مضحکہ اُڑایا کرتے تھے کہ ’’ملک کی تقسیم میری نعش پر ہوگی‘‘۔ وہ سردار پٹیل ہی تھے جو آر ایس ایس کا کھیل دیکھ سکتے تھے، جو ایک طرف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہی تھی اور مذہبی خطوط پر سماجی تقسیم کو یقینی بنانے میں مصروف تھی اور دوسری طرف اکھنڈ بھارت (متحدہ بھارت) کا نعرہ بھی لگا رہی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان، ہندوؤں کی برتری کے آگے سرِ تسلیم خم کرلیں جس کے لئے مسلمان ہرگز راضی نہیں تھے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ساورکر جیسا ہندو راشٹر کے تصور کو عام کرنے کی کوشش کرنے والا شخص وہ پہلا شخص تھا جس نے کہا تھا کہ ’’اس ملک میں دو اقوام ہیں، ایک ہندو قوم اور دوسری مسلم قوم‘‘۔ یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ہوگا کہ لندن میں پڑھنے والے ایک طالب علم چودھری رحمت علی نے مسلم اکثریتی ملک کے لئے 1930ء میں لفظ ’’پاکستان‘‘ منظر عام پر لایا۔ اس کے باوجود کئی مورخین ساورکر کو دو قومی نظریہ پیش کرنے والا کہتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جناح نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور اس مطالبہ پر ڈٹے رہے اور آج مودی نے 14 اگست کو تقسیم کی تباہ کاریوں کی یاد کا جو اعلان کیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک طرف مسلم اقلیت کے خلاف نفرت کے ماحول کو مزید گرم کیا جائے اور دوسری طرف تقسیم کیلئے پنڈت نہرو کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو ماحول تیار کیا گیا ، وہ بڑا خوفناک ہے۔ اُترپردیش کے کانپور میں ایک مسلم رکشا راں کو شدید زدوکوب کیا گیا ، اس کی 4 سالہ بیٹی روتی چلاتی رہی اور رحم کی بھیک مانگتی رہی ، اسے ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا ۔ ’’گولی مارو ، کاٹے جائیں گے‘‘ جیسے نعرے بھی لگائے جارہے ہیں ۔