تلاش گمشدہ

   

محمد جہانگیر علی
ایک تھے ہزارے جنہیں لوگ ’’اَنا ہزارے‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دیش بھگت کرانتی کاری بھی تھے جنہوں نے دیش کی آزادی میں حصہ لیا تھا جنہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب 2011ء میں ملک میں کانگریس کی حکومت تھی، منموہن سنگھ اس کے وزیراعظم تھے، کرپشن اور گھٹالوں کے نام پر انا ہزارے اچانک نمودار ہوئے اور ملک بھر میں آندولن کے ذریعہ راتوں رات مشہور ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہ بھوک ہڑتال کے ذریعہ سرخیوں میں آگئے اور آندولن کے کامیاب ہیرو بن گئے۔ جس کے لئے ہمارا بکاؤ میڈیا کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ پھر کیا تھا ملک میں تبدیلی کی ایک لہر آگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نریندر مودی ملک کی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو وزیراعظم نہیں بلکہ ایک چوکیدار کہلانا پسند کئے اور جنتا بھی بہت خوش تھی کہ ایک چائے والا وزیراعظم بن گیا ہے۔ اب ضرور اچھے دن آئیں گے، کیونکہ آتے ہی وزیراعظم نے نوٹ بندی کا شخصی فیصلہ کرکے ملک کے عوام کو سڑکوں پر لادیا تھا جس کے ذریعہ وہ ملک سے کالا دھن کا خاتمہ کرکے بیرون ممالک سے کالا دھن واپس لائیں گے اور عوام کی جیب میں 15 لاکھ روپئے ڈالے جائیں گے جوکہ آج تک بھی نہیں آیا اور نہ 15 لاکھ روپئے عوام کے کھاتہ میں آئے اور آئیں گے بھی نہیں مگر مودی کے حواری اور گودی میڈیا مودی حکومت کی تعریف میں زمین آسمان ایک کررہے تھے۔ پھر کیا تھا۔ مودی حکومت دوسری میعاد کیلئے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار پر آگئی۔ کہتے ہیں کہ EVM مشینوں کا کمال ہے جو اتنی بھاری اکثریت سے مودی پھر دوبارہ وزیراعظم بنے اور امیت شاہ وزیر داخلہ اب تو کسی کی مجال نہیں کہ مودی حکومت پر لگام کس سکیں۔ یہ سب دیکھ کر انا ہزارے بھی بہت خوش ہورہے تھے ہوں گے کیونکہ اصل ہیرو تو وہ تھے جو کامیاب آندولن چلاکر مودی کو اقتدار پر لائے تھے۔ مودی حکومت کا زبردست کارنامہ ایک یہ تھا کہ وہ کشمیر میں دفعہ 35A اور 370 کو برخاست کرکے کشمیر کو تقسیم کردیا اور وہاں کے عوام اور نیتاؤں کو گھروں میں قید کردیا جو آج بھی قید ہی ہیں۔ پھر اس کے بعد بہت ہی تیزی سے ملک میں نئے سیاہ قوانین جوکہ NRC، CAA اور NPR ہیں، پاس کرواکر عوام کو عمل آوری کیلئے حکم دیا گیاجوکہ یہ سیاہ قوانین ملک اور ملک کے عوام کے مفاد کے خلاف ہیں۔ اس کو اس ملک کے عوام نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور حکومت کے خلاف ان سیاہ قوانین کو واپس لینے کیلئے منظم طریقہ سے پرامن احتجاج شروع کیا

مگر حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر اَڑی رہی چنانچہ احتجاج کو ملک بھر میں آندولن میں تبدیل کردیا گیا جس میں قابل ذکر JNU، AMU اور شاہین باغ کے عوام ہیں جو اپنے بل بوتے پر اس کامیاب آندولن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں جس میں خاص کر ملک کی باعزت باصلاحیت، بہادر ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں شامل ہیں جن میں ہندو بھی ہیں۔ مسلمان ہی نہیں سکھ بھی ہیں یعنی سبھی مذاہب کے عوام ہیں اور باصلاحیت ہمارے نوجوان طالب علم و طالبات بھی ہیں اور اپنے پرامن عظیم احتجاج کے ذریعہ جو کہ ایک انقلاب سے کم نہیں ہے۔ مودی ۔ شاہ حکومت کی نیند حرام کرچکے ہیں۔ مگر یہ نااہل حکومت نت نئے حربوں کے ذریعہ اس کامیاب انقلاب کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے، مگر ناکام ہوگئی ہے۔ بہرحال ملک کے حالات اس قدر بھیانک اور خراب ہوگئے ہیں کہ ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ ایسے حالات میں کاش! انا ہزارے دہلی کے شاہین باغ تشریف لاتے اور خوش ہوکر ملک کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو آشیرواد دیتے اور کہتے کہ اب اس دیش کو میری ضرورت نہیں ہے کیونکہ مجھ جیسے نیتاؤں کے بغیر ہی اس ملک کے عوام، مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور نوجوان سب سنبھال رہے ہیں۔ اب کوئی قائد اور نیتا کی ضرورت ہی نہیں ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ انا ہزارے یا تو لاپتہ ہوگئے ہیں، جس طرح جے این یو طالب علم نجیب احمد لاپتہ ہے یا تو وہ اپنی شرمندگی کیلئے پردہ نشین ہوگئے ہیں۔ انہیں اپنی غلطی کا شاید احساس ہوگیا ہے کہ ان کی لائی ہوئی نالائق حکومت کے کارنامے اس قدر گھٹیا اور سیاہ ہیں کہ وہ اس ملک کے عوام کو اپنا منہ کس صورت میں دکھائیں یہ نہیں ہوسکتا وہ پچھتا رہے ہوں گے کہ آخر وہ سمجھے کیا اور ہو کیا گیا۔ گودی میڈیا بھی جو آندولن کے وقت انا ہزارے کو ہیرو بنانے میں لگا تھا، وہ بھی شرمندہ ہے۔ وہ بھی انا ہزارے کو بھول گیا ہے، ورنہ وہ اتہ پتہ ضرور بتاتا۔ پھر بھی ملک کے عوام اور ان کے چاہنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ جہاں بھی مل جائیں، جب بھی مل جائیں، انہیں شاہین باغ دہلی پہنچادیں، کیونکہ دیش کی جنتا ان کی دل فریب باتیں سننے کیلئے بے چین ہے۔