تلنگانہ اقلیتی کمیشن ،تشکیل کے باوجود کارکردگی صفر

   

عہدہ کے حصول میں ٹال مٹول ، اقلیتوں کے مسائل نظر انداز کرنے کی کوشش
حیدرآباد۔19اپریل(سیاست نیوز) عربی زبان کے محاوروں میں یہ ضرب المثل محاورہ ہے کہ ’ہر آنے والا حکمران اپنے گذرے ہوئے حکمران کی تعریف کرواتا ہے‘ یہ مثال کس حد تک درست یہ نہیں کہا جاسکتا لیکن تلنگانہ ریاستی اقلیتی کمیشن کے معاملہ میں یہ محارہ صادق آتا ہے کیونکہ متحدہ آندھراپردیش کا کمیشن ہویا منقسم ریاست میں تلنگانہ کے اقلیتی کمیشن کے صدرنشین کا عہدہ پر آنے والے ذمہ دار ہوں ان کو دیکھنے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ہر آنے والے صدرنشین نے اپنے گذرے ہوئے صدرنشین کی تعریف کروائی ہے کیونکہ کمیشن کی کارکردگی یا ان کے صدرنشین کے معیار و جرأ ت کا جائزہ لیا جائے تو اس عہدہ پرحالیہ عرصہ میں خدمات انجام دینے والے صدورنشین میں سب سے بہترین صدرنشین آندھراپردیش اقلیتی کمیشن کے مرحوم صدرنشین جناب یوسف قریشی ثابت ہوئے جنہوں نے مکہ مسجد بم دھماکہ ‘ اس کے بعد ہونے والی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوںکی تحقیقات اور پولیس فائرنگ کی رپورٹ تیار کرنے کے علاوہ اس وقت کے طاقتور وزیر کے پوترے کے عائشہ میراں عصمت ریزی و قتل معاملہ میں ملوث ہونے کی تحقیقات بہ نفس نفیس کی تھی ۔ اس کے علاوہ جی ایم آر انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں حاصل کی گئی موقوفہ اراضی کے عوض اراضی کی حوالگی کے لئے حکومت سے سفارش کی تھی جس پر ڈاکٹروائی ایس راج شیکھر ریڈی نے وقف بورڈ کو اراضی حوالہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ جناب یوسف قریشی کے بعد جناب عابد رسول خان نے آندھراپردیش اقلیتی کمیشن کے صدرنشین کے عہدہ پر فائز ہوئے اور انہوں نے اوقافی جائیدادوں کی سی بی سی آئی ڈی تحقیقات کروانے کی سفارش کے علاوہ آئمہ ومؤذنین کو معاوضہ دلوانے کی کامیاب جدوجہد کی اور تقسیم ریاست کے وقت بھی وہی صدرنشین اقلیتی کمیشن ہوا کرتے تھے ۔ م

بعد ازاں ریاستی حکومت کی جانب سے جناب قمرالدین کو صدرنشین اقلیتی کمیشن کے عہدہ پر نامزد کیا گیا اور ان کے دور میں بھی کمیشن کی کارکردگی مجموعی طور پر ٹھیک رہی لیکن اہم مسائل جیسے آلیر انکاؤنٹر‘ کشن باغ پولیس فائرنگ ‘ مہدی پٹنم گیریسن میں پیش آئے معصوم مصطفی کی ہلاکت کے معاملہ میں کوئی سخت موقف اختیار نہیں کیا اور نہ ہی حکومت کو کسی طرح کی سفارشات روانہ کی گئی اور اب حکومت نے ایک ماہ قبل نظام آباد سے تعلق رکھنے والے بی آر ایس قائد جناب طارق انصاری کو صدرنشین اقلیتی کمیشن کے عہدہ پر فائز کیا ہے لیکن شائد موجودہ صدرنشین اس بات سے بھی واقف نہیں ہیں کہ کمیشن کی صدارت کوئی سیاسی عہدہ نہیں بلکہ ایک دستوری عہدہ ہے اور اس عہدہ کے حصول کے بعد انہیں سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے خودکو غیر جانبدار ثابت کرنا چاہئے لیکن وہ چیف منسٹر کی دختر کے کویتا کی موجودگی میں اپنے عہدہ کا جائزہ لینے کے انتظار میں ہیں اور اقلیتی تعلیمی ادارہ تلنگانہ اقلیتی اقامتی جونیئر کالج میں ایک لڑکی ماں بن جاتی ہے اور نومولود کو کالج کے ذمہ دار کچہرے میں پھینک دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود اب تک اقلیتی کمیشن کی جانب سے کوئی نوٹس تک جاری نہیں کی جاتی اور نہ ہی میدک میں عبدالقدیر کی پولیس تحویل میں ہونے والی موت کے سلسلہ میں موجودہ اقلیتی کمیشن کی جانب سے کوئی رپورٹ طلب کی جاتی ہے بلکہ مکمل کمیشن کی بیک وقت جائزہ اجلاس تو دور ملاقات تک نہیں ہوپائی ہے۔م