تلنگانہ الیکشن: بی آر ایس ۔ بی جے پی محاذ بمقابلہ کانگریس

   

Ferty9 Clinic

شکست کے خوف سے بی جے پی سے مفاہمت، تلنگانہ الیکشن سے کے سی آر اور کے ٹی آر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ

حیدرآباد۔/11 جولائی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی منظر بتدریج واضح ہونے لگا ہے۔ ابتداء میں سہ رخی مقابلہ کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے لیکن بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان مبینہ مفاہمت کے بعد دو رخی مقابلہ یقینی ہوچکا ہے اور کانگریس پارٹی بمقابلہ بی آر ایس۔ بی جے پی اتحاد رہے گا۔ تلنگانہ میں کامیابی کی ہیٹ ٹرک کے مقصد سے کے سی آر نے بی جے پی کے ساتھ خفیہ مفاہمت کرلی ہے تاکہ کانگریس کو اقتدار سے روکا جاسکے۔ قومی سیاست میں حصہ داری کے نام پر بی جے پی کو ملک کی دیگر ریاستوں میں فائدہ پہنچانے کی پیشکش پر مرکزی حکومت نے کے سی آر ان کے خاندان کے ساتھ رویہ میں نرمی پیدا کردی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کی سرگرمیاں بھی تلنگانہ میں سُست پڑ چکی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عوام میں بی آر ایس اور بی جے پی مفاہمت پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے اور کرناٹک کی طرح عوامی رجحان کانگریس کے حق میں دن بہ دن شدت اختیار کررہا ہے۔ کرناٹک کے نتائج سے قبل تلنگانہ میں بی آر ایس کا کانگریس اور بی جے پی سے مقابلہ تھا لیکن کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد تلنگانہ میں نئی سیاسی صف بندی کے تحت کانگریس کا راست مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی اتحاد سے دکھائی دے رہا ہے۔ بی آر ایس قائدین نجی گفتگو میں اس حقیقت کو تسلیم کررہے ہیں کہ تلنگانہ میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے کے سی آر بیک وقت کانگریس اور بی جے پی سے ٹکراؤ کے متحمل نہیں ہوسکتے لہذا انہوں نے مرکز کے ساتھ درپردہ مفاہمت کرلی ہے جس کے نتیجہ میں ایک طرف تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارروائی سے افراد خاندان اور بی آر ایس قائدین محفوظ رہیں گے تو دوسری طرف تلنگانہ میں اقتدار کیلئے بی جے پی کی مدد حاصل ہوگی۔ ذرائع نے مزید کہا کہ جیسے جیسے الیکشن نوٹیفکیشن کی تاریخ قریب آئے گی دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت واضح ہوسکتی ہے۔ کانگریس کی بڑھتی مقبولیت نے کے سی آر کو بی جے پی سے مفاہمت کیلئے مجبور کردیا ہے۔ اسمبلی انتخابات بی آر ایس کیلئے کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ بی آر ایس کے سربراہ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کے فرزند کے ٹی راما راؤ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اسمبلی نتائج پر منحصر ہے۔ کے سی آر قومی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے تیسری میعاد کیلئے تشکیل حکومت کی صورت میں کے ٹی راما راؤ کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری میعاد کے آغاز کے بعد سے کے ٹی آر کے حامی انہیں چیف منسٹر بنائے جانے کے حق میں کھل کر اظہار خیال کرنے لگے ہیں اور کے سی آر پر دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی کو متحد رکھنے کے مقصد سے کے سی آر نے فرزند کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کرنے سے گریز کیا۔ بی آر ایس میں کے سی آر کے علاوہ کے ٹی آر اور ہریش راؤ کے مضبوط گروپس ہیں اور دونوں گروپس اپنے اپنے قائد کو تلنگانہ کے آئندہ چیف منسٹر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کانگریس میں دیگر پارٹیوں کے قائدین کی بڑے پیمانے پر شمولیت نے برسراقتدار پارٹی کے حوصلوں کو پست کردیا ہے اور بی جے پی سے خفیہ مفاہمت دراصل شکست کے خوف کا واضح ثبوت ہے۔ پارٹی کے کئی سینئر قائدین بی جے پی سے مفاہمت کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درپردہ مفاہمت کی صورت میں تلنگانہ میں بی جے پی مضبوط ہوسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں بی جے پی کیلئے کوئی خاص مواقع دستیاب نہیں ہیں لیکن مفاہمت کی صورت میں بی آر ایس کو اخلاقی طور پر بی جے پی کی تائید کرنی پڑے گی جس کے نتیجہ میں نہ صرف دیہی علاقوں میں بی جے پی کی گرفت مضبوط ہوگی بلکہ نشستوں میں بھی اضافہ کا امکان ہے۔ بی آر ایس قائدین کا کہنا ہے کہ کانگریس سے مقابلہ کے نام پر فرقہ پرست بی جے پی کو مضبوط ہونے کا موقع فراہم کرنا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ الیکشن نوٹیفکیشن کی اجرائی کے بعد بی آر ایس میں موجود مخالف بی جے پی عناصر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ر