اقلیتی بجٹ ’’نام بڑے درشن چھوٹے‘‘
اقلیتوں کے چمپین حکومت کی واہ واہ کررہے ہیں
حکومت کیلئے فلاحی اسکیمات بوجھ بن گئی ہیں
محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ کا بجٹ ’’اونچی دوکان پھیکا پکوان‘‘ کے مصداق ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اقلیتی بجٹ سے انصاف نہیں کیا گیا۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہونا چاہئے کہ اقلیتی بجٹ کے ’’نام بڑے درشن چھوٹے‘‘ جس طرح بڑے بلند دعوے کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ تلنگانہ کئی شعبوں میں سارے ملک میں سرفہرست ہے، اسی طرح یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ قرض کے حصول میں بھی تلنگانہ سارے ملک میں سرفہرست ہے اور سالانہ 14 ہزار کروڑ روپئے سود ادا کرنے پر فخر کا اظہار نہیں کیا اور یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ تلنگانہ کا ہر شہری 46.896 روپئے کا مقروض ہے ۔ یہ کوئی الزام نہیں ہے بلکہ حکومت کی جانب سے پیش کئے اعداد و شمار ہیں ۔ اقلیتی بجٹ میں تکنیکی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اقلیتی بجٹ میں اضافہ کرنے کا تاثر دیا جارہا ہے جن سے ایوان میں مباحث کرنے کے دوران سوال کرنے کی امید نہیں وہی واہ واہ کرتے ہوئے حکومت کی آنکھ مچولی کی در پردہ ستائش کرتے ہوئے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں ۔ سال 2019-20 ء میں اقلیتی بجٹ 2004 کروڑ روپئے پیش کیا گیا ، معاشی بحران کا اعتراف کرنے کے بجائے مرکز سے فنڈز حاصل نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے تقریباً 900 کروڑ روپئے اقلیتی بجٹ کی کٹوتی کرتے ہوئے اس کو 1369 کروڑ کردیا گیا مگر صرف 1000 کروڑ روپئے ہی جاری کئے گئے جس میں 750 کرو ڑ تلنگانہ مینارٹیز ریسیڈنشیل اسکولس پر خرچ کیا گیا ۔ تقریباً 400 کروڑ روپئے جاری ہی نہیں کئے گئے ، اس کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے جبکہ پہلی مرتبہ اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے والے وزیر فینانس ہریش راؤ نے مالیاتی سال کے اختتام تک ان بقایا جات کو جاری کردینے کا وعدہ کیا ہے ۔ بجٹ کی کٹوتی کو معاشی بحران کا نتیجہ اور مرکز سے فنڈز وصول نہ ہونے کی بات بتائی جارہی ہے اور یہ استدال پیش کیا جارہا ہے ۔ ہر شعبہ کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے ۔ ایس سی ، ایس ٹی طبقات کی ترقی اور فلاح و بہبود پر خرچ کئے جا نے والے اخراجات پر ہمیں ک وئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں ان کی ترقی کیلئے مزید فنڈس مختص کرنے کے ساتھ جاری بھی کئے جائیں مگر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی بھی نہیں ہونی چاہئے ۔ حکومت ایک طرف سیکولر ہونے اور دوسری طرف ریاست کو فلاحی اسٹیٹ قرار دے رہی ہے ۔ ریاست میں ایس سی ، ایس ٹی طبقات کیلئے سب پلان ہے ۔ اگر اتفاق سے کوئی سال ان کا مختص کردہ بجٹ مکمل جاری نہیں ہوتا ہے تو بقایا جات کو نئے بجٹ میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ ریاست میں ایس سی طبقات کی آبادی 12 فیصد سے زیادہ ہے ۔ ان کے لئے بجٹ میں 16 ہزار کروڑ روپئے سے زائد کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ مالیاتی بحران کے باعث ان مختص کردہ بجٹ میں صرف 56 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی ہے جبکہ ایس ٹی طبقہ کی آبادی ریاست میں 6 تا 7 فیصد ہے مگر ان کیلئے بجٹ میں 9 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ فنڈس مختص کئے گئے ہیں ۔ مالیاتی بحران کے باعث ایس ٹی طبقہ کے بجٹ 460 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی ۔ تلنگانہ میں اقلیتوں کی آبادی 14 فیصد سے زیادہ ہے مگر بجٹ میں مالی بحران کا بہانہ کرتے ہوئے 900 کروڑ روپئے کی کٹوتی کردی گئی ۔ اگر جاریہ ماہ کے اواخر تک بقایا جات جاری نہیں ہوئے ہیں تو سیدھا سیدھا نصف بجٹ کی کٹوتی ہوجاتی ہے مگر سال 2020-21 کے بجٹ میں کٹوتی کے بعد 1369 میں صرف 130 کا اضافہ کرتے ہوئے بجٹ میں کٹوتی کے بعد 1369 میں صرف 130 کا اضافہ کرتے ہوئے اسکو سب سے بڑا اضافہ قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ کرونالوجی سمجھ سے باہر ہے ۔ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین جو ہر سال اقلیتی بجٹ میں اضافہ ہونے پر کوئی چیف منسٹر کو مسیحا کہتے ہیں ، کوئی سب سے بڑے اسکالر قرار دیئے ، کہیں امام ضامن باندھ کر ستائش کی جاتی ہے تو کہیں چیف منسٹر کی تصویر کو دودھ سے نہلاتے ہوئے جشن مناتے ہیں تو کوئی میڈیا میں ، سوشیل میڈیا میں چیف منسٹر کی ستائش کرتے ہوئے تھکتے نہیں ہے ۔ آج وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں اور اقلیتی بجٹ میں کمی کے خلاف کوئی بات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔ اقلیتوں کے چمپین ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں ، ایوان میں جن کی نمائندگی ہے وہ بھی حکومت کی واہ واہ کرتے ہوئے ناانصافیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فلاحی اسکیمات کو انتخابی موضوع بناکر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے والی ٹی آر ایس کو اب یہی فلاحی اسکیمات بوجھ رہی ہیں، موجودہ فلاحی اسکیمات کو اب ٹی آر ایس حکومت روک نہیں سکتی ۔ وعدے کے مطابق نئی اسکیمات پر عمل کرنا بھی حکومت کیلئے لازمی ہوگیا ہے ۔ ان فلاحی اسکیم ات پر عمل آوری کیلئے اخراجات ایک لاکھ کروڑ ہیں، تنخواہوں اور سود کی ادائیگی پر 78 ہزار کروڑ کے مصارف ہیں۔ ہر سال ریاست کے فروغ پر مالی بوجھ بڑھ رہا ہے ۔ مگر اس کے مطابق آمدنی نہیں ہورہی ہے جس کی وجہ سے سال پر دیئے 2020-21 کا بجٹ حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج کیا ہے ۔ فلاحی اسکیمات پر عمل آوری کیلئے بھاری بجٹ کی فروخت ہے ۔ برقی سبسیڈی اور صنعتوں کو دی جانے والی رعایتیں ، بلا سودی قرص ، رعیتو بیمہ اسکیم ، کے سی آر کلیان لکشمی شادی مبارک جیسی اسکیمات کیلئے فنڈس کی اجرائی ضروری ہے ۔ جاریہ سال سے کسانوں کے قرض معافی اسکیم پر بھی عمل کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے لئے بجٹ میں 6225 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ بجٹ میں فلاحی اسکیمات پر 1.04 لاکھ کروڑ روپئے کا تخمینہ کیا گیا ہے ۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کریا جائے تو اس حکومت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ ہر حال میں ان پر عمل آوری لازمی ہوگئی ہے ۔ رعیتو بندھو اسکیم کے تحت کسانوں کی سرمایہ کاری کے معاملے فنڈس کی اجرائی میں حکومت ٹال مٹول کی پالیسی اپنا رہی ہے۔ اس کے باوجود بجٹ میں اس اسکیم کیلئے حکومت نے دو ہزار کروڑ روپئے کا اضافہ کیا ہے ۔ اس کی رقم 12 ہزار کروڑ بڑھاکر 14 ہزار کرو ڑ روپئے کردی گئی ہے ۔ آسرا پنشن اسکیم میں بھی بعض مقامات پر تاخیر سے اجرائی ہونے کی شکایتیں وصول ہورہی ہیں ۔ باوجود اس کے بجٹ میں ہر سال فلاحی اسکیمات کے مصارف میں اضافہ ہورہا ہے ۔ مگر دوسری جانب آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔ آمدنی کا اندازہ کریں تو مصارف بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، جاریہ سال سے نئی اسکیمات پر بھی عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بجٹ میں بھاری فنڈس مختص کئے گئے ہیں مگر ان پر عمل آوری حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ بجٹ میں حکومت کی جانب سے جو امیدیں لگائی گئی ہیں اس کے لئے فنڈس کا انتظام کرنا حکومت کیلئے بہت بڑا امتحان ہوگا ۔ تلنگانہ میں سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ سالانہ تنخواہوں پر 28 ہزار کروڑ تا 30 ہزار کروڑ روپئے کے مصارف ہیں،
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ کا 16 فیصد حصہ تنخواہوں اور وظیفوں پر خرچ ہورہا ہے اور اگر پی آر سی پر عمل کیا جاتا ہے تو مصارف مزید بڑھ سکتے ہیں ۔ حاصل کردہ قرض کا سودا ادا کرنے کے لئے بجٹ میں 14 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں، کسی بھی صورت میں یہ رقم دستیاب رکھنا ضروری ہے۔ تنحواہوں اور سود کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کیلئے سات ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صرف تنخواہوں ، سود اور سبسیڈیز کیلئے ہی نہیں دوسری فلاحی اسکیمات کیلئے فنڈس کی اجرائی لازمی ہے۔ ان سب کو پورا کرنے کیلئے فنڈس کا اکٹھکا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہر سال ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے مگر اخراجات کے مطابق آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے ۔ مثال کے طور پر سال 2019-20 کے دوران حکومت نے ٹیکس کے ذریعہ 71 ہزار کروڑ روپئے وصول ہونے کا اندازہ لگایا تھا ۔ مگر توقع کے مطابق آمدنی نہیں ہوئی جس سے حکومت کو مایوسی ہوئی ۔ جاریہ سال کے بجٹ میں بھی ٹیکس سے 85,300 ہزار کروڑ روپئے وصول ہونے کی امید لگائی گئی ہے ۔ حکومت تلنگانہ مرکز کی جانب سے ٹیکس سے وصول ہونے والی آمدنی گھٹنے کا دعویٰ کر رہی ہے مگر پھر بھی بجٹ میں اس آمدنی کو ہر سال بڑھا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ اگر توقع کے مطابق مرکز سے فنڈس کی اجرائی نہیں ہوئی تو اس کا راست اثر اخراجات پر ہوگا ۔ غیر ٹیکس آمدنی کی بھی یہی صورتحال ہے ۔ بجٹ میں غیر ٹیکس آمدنی 30,600 کروڑ روپئے ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے لیکن صرف یقینی طور پر 10 ہزار کروڑ روپئے کی آمدنی ہوسکتی ہے ۔ جس میں معدنیات سے 5600 کروڑ اور 4000 کروڑ روپئے دوسرے ریالیٹیز کے ذریعہ ہوسکتی ہے ۔ ماباقی 20 ہزار کروڑ روپئے کے بارے میں کوئی واضح اشارے نہیں ہے ۔ ان میں سے 14,515 کروڑ روپئے اراضیات فروخت کرتے ہوئے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن ہر سال اراضیات فروخت کرتے ہوئے آمدنی حاصل کرنے کا جو تخمینہ تیار کیا جاتا ہے۔ وہ غلط ثابت ہورہا ہے جبکہ جاریہ سال اراض یات کے فروخت کرتے ہوئے 10 ہزار کروڑ روپئے کی آمدنی حاصل کرنے کا نشانہ مختص کیا گیا ہے ۔
حکومت پر انحصار کرنے والے عوام کی آبادی میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے جس کے پیش نظر حکومت ہر سال نئے نئے اسکیمات متعارف کروا رہی ہے ۔ جب کوئی بھی نئی اسکیم متعارف کی جاتی ہے تو اس کو برقرار رکھنا پڑتا ہے ۔ اگر کوئی بھی اسکیم درمیان میں روک دی جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں اور عوام بھی ان اسکیمات کے عادی ہوجاتے ہیں اور حکومت سے اس کی امید کرتے رہتے ہیں ، ایسی صورت میں قدیم ا سکیمات کو روبہ عمل لاتے ہوئے نئی اسکیمات پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے جس سے ہر سال حکومت پر بھاری بوجھ عائد ہورہا ہے ۔ حکومت نے بیروزگار نوجوانوں کے لئے ماہانہ 3015 روپئے بیروزگاری بھتہ دینے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے لئے بجٹ میں کوئی گنجائش فراہم نہیں کی ہے ۔ اس سے سرکاری خزاننے پر مزید بوجھ بڑھ جائے گا۔