بی آر ایس 35 ، بی جے پی 8 اور مجلس کو 7 نشستیں، کے سی آر اور ریونت ریڈی کو کاماریڈی میں شکست، بی آر ایس کے 6 وزراء بھی ہار گئے
حیدرآباد۔/3 ڈسمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کے رائے دہندوں نے نئی ریاست کی تشکیل کے بعد نئی تاریخ رقم کرکے گذشتہ 10 برسوں سے برسراقتدار بی آر ایس حکومت کو زوال سے دوچار کردیا۔ تلنگانہ تشکیل دینے والی کانگریس کو دس سال بعد سہی لیکن عوام نے واضح اکثریت کے ساتھ تحفہ دیا ہے۔ 119 رکنی اسمبلی میں کانگریس کو 64 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ بی آر ایس نے 35 پر کامیابی حاصل کی اور 4 نشستوں پر آخری اطلاعات ملنے تک سبقت برقرار تھی۔ مجلس اپنی 7 اسمبلی نشستوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اسے نامپلی اور یاقوت پورہ اسمبلی حلقہ جات میں ایک ایک ووٹ کیلئے جدوجہد کرنی پڑی۔ کانگریس کی تائید سے سی پی آئی نے کتہ گوڑم حلقہ سے کامیابی حاصل کی جہاں اس کے ریاستی سکریٹری سامبا سیوا راؤ امیدوار تھے۔ بی جے پی نے تلنگانہ میں اقتدار کا خواب دیکھا تھا لیکن اسے صرف 8 نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا جو گذشتہ اسمبلی چناؤ کے مقابلہ 5 زیادہ ہیں۔ اسمبلی چناؤ کیلئے 30 نومبر کو رائے دہی ہوئی تھی اور آج صبح 8 بجے سے ووٹوں کی گنتی کا آغاز ہوا۔ ریاست بھر میں 49 رائے شماری مراکز پر ووٹوں کی گنتی ہوئی۔ صبح 8 بجے پوسٹل بیالٹ کی رائے شماری ہوئی جس کے بعد ای وی ایم مشینوں کے ووٹس کی گنتی عمل میں لائی گئی۔ نتائج کا ابتداء سے ہی رجحان کانگریس کے حق میں دیکھا گیا اور تیسری مرتبہ اقتدار کے خواہاں کے سی آر کو نتائج نے حیرت میں ڈال دیا اور مایوسی ہوئی ہے۔ نتائج نے کانگریس کی اعلیٰ قیادت کی لاج رکھ لی کیونکہ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کو شکست ہوئی حالانکہ ایگزٹ پول میں چھتیس گڑھ و راجستھان میں کانگریس کی کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی تھی۔ تلنگانہ میں 10 سال کے بعد کانگریس کو اقتدار ملا ۔ اسمبلی نتائج چیف منسٹر کے سی آر اور امکانی چیف منسٹر ریونت ریڈی دونوں کیلئے چونکا دینے والے رہے کیونکہ ووٹرس نے دونوں کو ایک ، ایک حلقہ سے مایوس کردیا۔ کے سی آر نے گجویل کے علاوہ کاماریڈی جبکہ ریونت ریڈی نے کوڑنگل کے علاوہ کاماریڈی سے مقابلہ کیا تھا۔ کے سی آر گجویل سے کامیاب رہے جبکہ ریونت ریڈی کو کوڑنگل سے کامیابی ملی۔ کاماریڈی میں دونوں کی موجودگی کے باوجود بی جے پی کو کامیابی ملی ۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ بی جے پی سے مقابلہ میں ریونت ریڈی دوسرے اور کے سی آر تیسرے نمبر پر رہے۔ اسمبلی نتائج میں بی جے پی کو 5 نشستوں کا فائدہ ہوا۔ گذشتہ اسمبلی میں حضورآباد، دوباک اور گوشہ محل سے بی جے پی کی نمائندگی تھی لیکن اس مرتبہ حضورآباد اور دوباک میں ایٹالہ راجندر و رگھونندن راؤ کو عوام نے مسترد کردیا جبکہ کاماریڈی، نرمل اور نظام آباد ( اربن ) سے بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ اسمبلی نتائج ایگزٹ پول اور رائے دہی سے قبل اوپینین پول نتائج کے عین مطابق رہے۔ زیادہ تر میڈیا اداروں نے کانگریس کو 63 سے 70 نشستوں پر کامیابی کی پیش قیاسی کی تھی اور کانگریس اپنی حلیف سی پی آئی کے ساتھ 65 نشستوں پر کامیاب رہی ہے۔ انتخابی نتائج کے بارے میں بعض گوشوں نے معلق اسمبلی کی پیش قیاسی کی تھی۔ معلق اسمبلی کی صورت میں کے سی آر اپنی حلیف پارٹیوں کی تائید حاصل کرنے اور کانگریس کے بعض ارکان کو انحراف کیلئے ترغیب دینے کی تیاری کر رہے تھے تاکہ تیسری مرتبہ حکومت تشکیل دیں لیکن ووٹرس نے کانگریس کے حق میں واضح فیصلہ دیا ہے۔ بی آر ایس کے کئی اہم قائدین بشمول 6 وزراء کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی مہم کے دوران ہی یہ واضح ہورہا تھا کہ دیہی علاقوں میں کانگریس پارٹی کے حق میں لہر ہے جبکہ شہری علاقوں میں بی آر ایس کی گرفت مضبوط تھی۔ دس سالہ بی آر ایس کا اقتدار اگرچہ کئی فلاحی اسکیمات کے آغاز کا سبب بنا لیکن اسکیمات میں کمیشن کے حصول اور ارکان اسمبلی کی عدم کارکردگی نے حکومت کے خلاف ماحول تیار کردیا تھا۔ کانگریس کی کامیابی میں ریونت ریڈی کی محنت اور مقبولیت کے علاوہ راہول گاندھی، پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھرگے کی مہم کا اہم دخل رہا۔ کانگریس نے جن 6 ضمانتوں کا اعلان کیا ہے ان پر عوام نے بھروسہ جتایا ہے۔ 2014 اسمبلی چناؤ میں بی آر ایس کو 63 ، کانگریس کو 21 اور بی جے پی کو 5 نشستوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ مجلس 7 نشستوں پر کامیاب رہی۔ 2018 اسمبلی چناؤ میں بی آر ایس کو 88 اور کانگریس کو 19 نشستیں حاصل ہوئیں۔ مجلس اپنی 7 نشستوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی جبکہ بی جے پی کو ایک نشست پر اکتفاء کرنا پڑا ۔