تلنگانہ ریاست میں لڑکیوں کی شرح پیدائش میں کمی

   

وقارآباد ضلع میں لڑکے اور لڑکیوں کی پیدائش کا تناسب یکساں
حیدرآباد۔ 28 اگست (سیاست نیوز) کیا ریاست میں لڑکیوں کی پیدائش میں کمی واقع ہورہی ہے؟ کیا عوام میں جنسی تفرقہ کے خلاف بیداری نہیں ہے؟ اگرچہ سوالات کے جوابات ہاں میں نظر آتے ہیں کیونکہ ریاستی حکومت کے زیراہتمام کارکرد ای۔ برتھ پورٹل کا یکم جنوری تا 25 اگست جائزہ لینے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ واقعی لڑکیوں کی پیدائشی کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور پورٹل کے مطابق ریاست میں 8 ماہ کے ایک ہزار لڑکوں کیلئے صرف 429 لڑکیاں ہی ہیں جبکہ ریاست کے 5 اضلاع میں 1000 لڑکوں کے مقابلہ صرف 400 لڑکیاں ہی ہونے سے بڑی تشویش لاحق ہورہی ہے اور اس 8 ماہ کے عرصہ میں ریاستی سطح پر 1,61,764 لڑکوں کی پیدائش ہوئی ہے جبکہ 1,50,212 لڑکیوں کی ہی پیدائش ہوئی ہے اور اگر تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو لڑکوں کی پیدائش 50% ہے تو لڑکیوں کی پیدائش 48% ہی ہے البتہ ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو ضلع وقارآباد میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ 973 لڑکیوں کی پیدائش کسی حد تک اطمینان بخش ہے جبکہ ریاستی سطح پر سب سے کم لڑکیوں کی پیدائش ورنگل ضلع رورل میں ہے جہاں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ صرف 881 لڑکیوں کی پیدائش ہے اور اس کی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ جنین کی پیدائش سے قبل ہی حاملہ کے پیٹ میں جنس کی نشاندہی ہے، حالانکہ جنس کا مادر رحم میں تعین اور اطلاع دینا غیرقانونی ہے مگر اس کے باوجود بڑی خاموشی کے ساتھ جنس کے تعین کئے جانے کی افواہیں ہیں حالانکہ ہر ایک دواخانہ اور ڈائیگناسٹک سنٹر کو پی سی پی این ڈی ٹی ایکٹ تحت رجسٹر کروانا ہوتا ہے اور سماجی کارکنان کا الزام ہے کہ اس معاملے میں ضلع صحت کے افسران دیکھی اَن دیکھی جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اور بھی وجہ ہے کہ مادر رحم ہی میں جنس کا پتہ چلایا جارہا ہے اور سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ مادر رحم ہی میں جنس کا پتہ چلانے سے لڑکیوں کو مادر رحم ہی میں قتل کئے جانے کے شدید امکانات ہیں۔