محمد نعیم وجاہت
ریاست تلنگانہ اپنی تشکیل کے 6 سال مکمل کر کے جاریہ ماہ 2 جون کو ساتویں سال میں داخل ہوگیا ہے۔ تحریک کے دوران عوام کو جو خواب دکھایئے گئے تھے ، وہ پورے نہیں ہوئے بلکہ عوام کو جھوٹے وعدوں کے ذریعہ گہری نیند سلایا جارہا ہے ۔ اپنی کارکردگی کو بہتر اور ناکامیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو ترقی کے دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے سوال کرنے پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جس طرح پڑوسی ملک پاکستان ہندوستان کے اندرونی معاملت میں مداخلت کر رہا ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر اُس فلسفہ پر عمل کر رہے ہیں جو عام طور پر کہا جاتا ہے۔ سانپ کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو اس کو بڑی لاٹھی سے مارا جائے ۔ چیف منسٹر کے بشمول حکمراں ٹی آر ایس کے قائدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تلنگانہ ترقی اور دولتمندی کے معاملے میں ملک کی سرفہرست ریاست ہے اور مختصر عرصہ میں کے سی آر نے اپنی دانشمندی سے ریاست تلنگانہ کو ملک کی دوسری ریاستوں کیلئے قابل تقلید بنادیا ہے ۔ یہ ٹی آر ایس قا ئدین کا رجحان و احساس ہوسکتا ہے ۔ اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ یہ ان کی پارٹی، اقتدار اور عہدوں پر رہنے والی مجبور ہوسکتی ہے ۔ مگر سکے کے دوسرے رخ پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس کو دیکھنا اور غلطیوں کا اعتراف کرنا حقائق کو قبول کرنا حکمراں طبقہ کو پسند نہیں ہوتا، دراصل حصول قرض میں ریاست تلنگانہ سارے ملک میں سرفہرست ہے۔ جس طرح ترقی اور خوشحالی میں تلنگانہ سارے ملک میں سرفہرست ہونے کا حکمراں طبقہ فخر سے دعویٰ کرتے ہیں، اس طرح قرض حاصل کرنے میں بھی تلنگانہ سارے ملک میں سرفہرست ہونے کا کبھی اعتراف نہیں کرتے ، جب آندھراپردیش کی تقسیم ہوئی علحدہ تلنگانہ ریاست وجود میں آئی تو تلنگانہ کے حصہ میں اثاثہ جات ، جائیداد آمدنی کے سا تھ 67 ہزار کروڑ روپئے کا قرض بھی ورثے میں ملا مگر ان 6 سال کے دوران ریاست کا قرض 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ سے بھی تجاوز کرچکا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے دوران مزید 6 ہزار کروڑ روپئے قرض حاصل کیا گیا ۔ اس طرح 6 سال میں دو لاکھ کروڑ سے زیادہ قرض حاصل کیا ہے جس پر حکومت 10 ہزار کروڑ سے زائد سود ادا کر رہی ہے ۔ ان 6 سال کے دوران حکمراں طبقہ کی جانب سے بڑے بڑے وعدے کئے گئے مگر صرف چھوٹے چھوٹے عمل کئے گئے ۔ پیسے کے کام کو 100 روپئے کی تشہیر کی گئی ۔ ریاست کے مختلف محکمہ جات میں 2 لاکھ 80 ہزار جائیدادیں مخلوعہ ہیں جبکہ تلنگانہ تحریک کے اہم مطالبات ، پانی ، فنڈز اور ملازمتیں تھیں، تحریک اور انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کے سی آر نے ہر گھر کو ایک ملازمت دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک گاؤں کو بھی ایک ملازمت نہیں ملی ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اس وقت کے وزیر فینانس ایٹالہ راجندر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے سرکاری محکمہ جات میں 1,07,456 جائیدادوں مخلوعہ ہیں۔ ان 6 سال کے دوران مزید 40 ہزار سے زائد ملازمین ریٹائرڈ ہوئے ۔ اس کے علاوہ اضلاع کی تشکیل جدید کے بعد 23 نئے اضلاع ساتھ ہی 128 منڈل اور 26 ریونیو ڈیویژنس کی تشکیل عمل میں آئی جس سے ریاست کے 44 محکمہ جات میں مزید 40 ہزار جائیدادیں متعارف ہوئی ہیں ۔ اس طرح ریاست تلنگانہ میں جملہ 2 لاکھ 80 ہزار جائیدادیں مخلوعہ ہیں مگر حکومت کی جانب سے ان 6 سال کے دوران صرف 35 ہزار جائیدادوں کیلئے فنڈز مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ منظورہ جائیدادیں ہیں اور ان کیلئے پہلے سے فنڈز مختص کردیا گیا ہے ، پھر بھی حکومت کی جانب سے منظورہ جائیدادوں پر تقررات کے معاملے میں ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جارہی ہے ۔ 40 ہزار سے زائد ملازمین کے ریٹائرڈ ہونے پر حکومت کو 10 ہزار کروڑ روپئے کی بچت ہورہی ہے۔سرکاری اسکولس میں 40 ہزار ٹیچرس کی جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ جونیئر کالجس میں 4900 جونیئر لکچررس ڈگری کالجس میں 1800 لکچررس اور یونیورسٹیز میں 2200 اسسٹنٹ پروفیسرس کی جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت کی پہلی میعاد میں غریب عوام کو 2 لاکھ 75 ہزار ڈبل بیڈروم مکانات دینے کا وعدہ کیا گیا، بڑی مشکل سے 40 ہزار ڈبل بیڈروم مکانات بھی عوام میں تقسیم نہیں کئے گئے ۔ مسلمانوں کو صرف اقتدار حاصل ہونے کے 4 ماہ میں 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔ مگر 72 ماہ گزرنے کے باوجود چیف منسٹر نے مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا، صرف ضابطہ کی تکمیل کیلئے اسمبلی اور کونسل میں قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کردی گئی جبکہ انتخابی منشور میں مرکز سے تحفظات دلانے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ۔ مسلمانوں کی چمپین ہونے کا دعویٰ کرنے والی قیادت اس مسئلہ پر خاموش ہے ۔ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین اس وعدے پر چیف منسٹر کی توجہ دلاتے یا جدوجہد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ دلت طبقات کو فی خاندان تین ایکر اراضی دینے کا وعدہ کیا گیا ، اس کو بھی فراموش کردیا گیا ۔ دولتمند ریاست میں سرکاری ملازمین کے لئے ریویژن کمیشن پر عمل نہیں کیا گیا ۔ ریٹائرڈ ہونے کی حد عمر میں تین سال کا اضافہ کرنے کا وعدہ کیا گیا ، اس پر بھی کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران سرکاری ملازمین کی تین ماہ تک 50 فیصد تنخواہوں میں کٹوتی کردی گئی ۔ ریٹائر ایمپلائیز کی بھی پہلے ماہ 50 فیصد وظیفہ کی کٹوتی کی گئی ۔ بیروزگار نوجوانوں کو ماہانہ 3015 روپئے بیروزگار بھتہ دینے کا وعدہ کیا گیا ، اس پر بھی کوئی عمل آوری نہیں کی گئی ۔ یقیناً زرعی شعبہ کی ترقی کسانوں کی فلاح و بہبود برقی کی سربراہی وغیرہ میں بہتر مظاہرہ کیا گیا جس کی بھی ستائش ضروری ہے مگر ٹی آر ایس کا 6 سالہ دور حکومت مایوس کن ہے ، توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن واچ ڈاگ ہوتے ہیں مگر چیف منسٹر کے سی آر نے اپوزیشن جماعتوں کو کبھی اہمیت نہیں دی بلکہ ان کے ارکان اسمبلی اور دوسرے عوامی منتخب نمائندوں کو سیاسی وفاداریاں تب دیل کرتے ہوئے حکمراں جماعت میں شامل کرلیا اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ چیف منسٹر کی دختر سابق رکن پارلیمنٹ کے کویتا کو نظام آباد کے مقامی اداروں کے کونسل انتخاب میں کامیاب بنانے کیلئے کانگریس اور بی جے پی کے مقامی اداروں سے منتخب نمائندوں کو بڑے پیمانے پر ٹی آر ایس میں شامل کر دیا جارہا ہے ۔
ٹی آر ایس کے 6 سال دور حکومت میں حیدرآباد کے پرانے شہر کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ کانگریس کے دور حکومت میں میٹرو ریل چلانے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا مگر ٹی آر ایس حکومت نے سوائے پرانے شہر کے دیگر مقامات پر میٹرو ریل کا آغاز کیا مگر پرانے شہر کو نظر انداز کردیا ۔ کانگریس کے دور حکومت میں پرانے شہر کی ترقی کیلئے 200 کروڑ روپئے کا خصوصی بجٹ مختص کیا تھا مگر ٹی آر ایس کے دور حکومت میں پرانے شہر کی ترقی کے لئے کوئی خصوصی بجٹ منظور نہیں کیا گیا اور نہ ہی ترقی و تعمیری کاموں پر انہیں زیادہ توجہ دی گئی جو شہر کے دوسرے علاقوں یہاں تک کہ مضافاتی علاقوں کی ترقی پر دی جارہی ہے ۔ چارمینار پیدل پراجکٹ برسوں سے تعطل کا شکار ہے ۔ کوئی نئی فیکٹری آئی ٹی پارک وغیرہ قائم نہیں ہوئے جس سے مقامی نوجوانوں کو روزگار حاصل ہوسکے ۔ اس طرح کی سرگرمیوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی پرانے شہر کے مقامی عوامی نمائندوں نے حکومت کی اس طرف کوئی توجہ دلائی ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اولڈ سٹی کو گولڈ سٹی میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ کیا ہوا تیرا وعدہ کے بارے میں چیف منسٹر سے کوئی سوال ہی نہیں کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران حیدرآباد کے عنبرپیٹ میں سڑک توسیع کے نام پر مسجد یکخانہ کا انہدام کیا گیا ۔ ضلع کھمم کے ایک جنگلاتی علاقہ میں واقع مسجد کا انہدام کردیا گیا ۔ چند دن قبل سڑک توسیع کے نام پر ضلع محبوب نگر میں ایک قدیم عاشور خانہ کا انہدام کردیا گیا۔ اس پر مسلم قیادت نے کوئی احتجاج نہیں کیا ، صرف تحریری نمائندگیوں پر اکتفاء کیا جبکہ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین بھی خاموش ہے۔ ایسے معاملات میں وہ آگے نہیں آتے اگر حکومت کی طرف سے کوئی اعلان ہوتا ہے ۔ چیف منسٹر اور حکومت کی ستائش کرتے ہوئے تھکتے نہیں ہے ۔ اب تو نیا کلچر فروغ پارہا ہے ۔ چیف منسٹر کی تصویر کو دودھ سے نہلاتے ہوئے جوش و خروش بنایا جارہا ہے ۔ امام ضامن کلچر اب ختم ہورہا ہے ۔ چیف منسٹر کسی مسلم قائد کو دستیاب نہیں ہورہے ہیں، ٹی آر ایس کے مسلم قائدین اب اس کلچر کے فروغ کیلئے ٹی آر ایس کے چھوٹے موٹے لیڈر کوبھی امام ضامن باندھتے ہوئے تصویر کھینچاتے نظر آرہے ہیں۔