تلنگانہ میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کیلئے کے سی آر کی ارکان اسمبلی پر کڑی نظر

,

   

کارکردگی کی بنیاد پر تین زمروں میں تقسیم، مختلف سروے رپورٹس کا حصول، کرناٹک نتائج کے بعد مشکلات میں اضافہ
حیدرآباد۔/4 جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کے نشانہ کے ساتھ اسمبلی انتخابات کی تیاری کرنے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پارٹی ارکان اسمبلی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے مختلف سطح پر سروے کا اہتمام کیا۔ بی آر ایس کے موجودہ 104 ارکان اسمبلی میں تقریباً 50 فیصد ایسے ہیں جن کیلئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا، اور اگر انتخابات تک ان کی منفی رپورٹ مثبت میں تبدیل نہ ہو تو پھر ان کے حلقہ جات سے نئے چہروں کو ٹکٹ دیا جائے گا۔ چیف منسٹر کے سی آر نے پارٹی کی تیسری مرتبہ کامیابی کیلئے ارکان اسمبلی پر مکمل انحصار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ارکان اسمبلی کی بہتر کارکردگی انہیں ہیٹ ٹرک کرواسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف منسٹر نے کارکردگی کی اساس پر کئے گئے سروے کے لحاظ سے 104 ارکان اسمبلی کو تین زمرہ جات میں تقسیم کیا ہے۔ اے، بی، سی زمرہ جات کے تحت کارکردگی کے لحاظ سے ارکان اسمبلی کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسے ارکان اسمبلی جن کی دوبارہ کامیابی یقینی ہے انہیں ’ اے‘ زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ 35 تا 50 فیصد کامیابی کے امکانات والے ارکان اسمبلی کو زمرہ ’ بی‘ اور 20 تا 35 فیصد کامیابی کے امکانات والے ارکان کو ’ سی ‘ زمرہ کے تحت شامل کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے کے سی آر ’ بی‘ اور ’ سی ‘ زمرہ جات کے ارکان اسمبلی پر خصوصی توجہ مرکوز کریں گے۔ ’ بی ‘ زمرہ کے تحت 30 اور ’ سی ‘ زمرہ کے تحت 18 ارکان اسمبلی کو شامل کیا گیا ہے۔ ’ بی ‘ زمرہ کے ارکان کو کارکردگی بہتر بنانے کا مشورہ دیا گیا جبکہ ’ سی ‘ زمرہ کے ارکان اسمبلی کو مقررہ مدت تک کارکردگی بہتر بنانے وارننگ دی گئی ہے کہ اگر وہ کارکردگی بہتر بنانے میں ناکام رہیں تو انہیں ستمبر میں آخری سروے کے تحت ٹکٹ کے بارے میں فیصلہ کا انتظار کرنا ہوگا۔ اگر ستمبر کے سروے میں کارکردگی 35 فیصد سے زائد نہ ہو تو ان کی جگہ نئے چہروں کو ترجیح دی جائے گی۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ کے سی آر ہفتہ واری اساس پر ارکان اسمبلی کی کارکردگی سے متعلق سروے رپورٹ حاصل کررہے ہیں۔ رپورٹ میں کمزور پائے جانے والے ارکان کو فوری طور پر چوکنا کیا جارہا ہے کہ ان کا ٹکٹ خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ پارٹی قیادت اگرچہ 90 تا 100 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کررہی ہے لیکن سروے رپورٹس کے نتائج دعویٰ کے مطابق نہیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بی آر ایس صرف 40 اسمبلی حلقہ جات میں مضبوط موقف رکھتی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کی شاندار واپسی کے بعد جو سروے کیا گیا اس کے مطابق50 سے زائد حلقوں میں کانگریس نے اپنا موقف بہتر بنایا ہے۔ واضح رہے کہ تلنگانہ کی تشکیل کے فوری بعد 2014 اسمبلی انتخابات میں اس وقت کی ٹی آر ایس کو 63 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ 2018 میں 88 نشستوں پر کامیابی ملی۔ کانگریس، تلگودیشم اور بائیں بازو ارکان کے انحراف سے بی آر ایس ارکان کی تعداد بڑھ کر 104 ہوچکی ہے۔ اسی دوران ارکان اسمبلی کی ناقص کارکردگی کو بنیاد بناکر کئی بی آر ایس ارکان کونسل نے اسمبلی انتخابات میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ وہ پارٹی ہائی کمان کو اپنی پسند کے حلقہ جات میں ٹکٹ کی مانگ کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تاحال 10 سے زائد ارکان کونسل نے اسمبلی ٹکٹ کیلئے دعویداری پیش کردی جن میں ٹی سرینواس ریڈی، مہیندر ریڈی، کوشک ریڈی، سکھیندر ریڈی، کے سری ہری، ایس سبھاش ریڈی، پی راجیشور راؤ، کوٹی ریڈی اور دوسرے شامل ہیں۔ ارکان کونسل کی میعاد اگرچہ آئندہ دو برسوں تک باقی ہے لیکن وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے کابینہ میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق کے سی آر نے اپنی دختر کویتا کو 2024 لوک سبھا انتخابات میں ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قانون ساز کونسل کے صدرنشین سکھیندر ریڈی اپنے فرزند کو منوگوڑ اسمبلی اور خود کیلئے نلگنڈہ لوک سبھا حلقہ کے ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ کوشک ریڈی بی جے پی ایم ایل اے ایٹالہ راجندر کے خلاف حضور آباد سے دوبارہ مقابلہ کرنے کی تیاری میں ہیں۔ر