تلنگانہ میں بی جے پی کو ہندوتوا چہرے کی تلاش، چناؤ میں ووٹ تقسیم کرنے پر توجہ

   

وزیر اعظم نریندر مودی کی تلنگانہ پر خصوصی نظر، مندروں میں مہم، متحدہ رائے دہی سے فرقہ پرستی کا مقابلہ ممکن
حیدرآباد۔/9 اپریل، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کو بی جے پی قومی قیادت نے اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔ جنوبی ہند میں قدم جمانے کیلئے پارٹی نے تلنگانہ پر توجہ مرکوز کردی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے تلنگانہ کی انتخابی حکمت عملی کی راست ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی کے حوصلے کافی بلند ہیں کیونکہ دس سال تک اقتدار کے بعد اپوزیشن میں آنے والی بی آر ایس دن بہ دن غیر مستحکم ہورہی ہے۔ بی آر ایس کے عوامی نمائندوں کی کانگریس اور بی جے پی میں شمولیت کے نتیجہ میں ریاست بھر میں بی آر ایس کیڈر الجھن کا شکار ہے۔ ان حالات میں بی جے پی نے 10 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کرتے ہوئے سنگھ پریوار کی تمام تنظیموں کو تلنگانہ میں متحرک کردیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ دیگر ریاستوں کے مقابلہ تلنگانہ میں زائد انتخابی ریالیوں سے خطاب کریں گے۔ لوک سبھا چناؤ تلنگانہ میں دراصل کانگریس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ رہے گا اور ایسے میں سیکولر ووٹ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ بی جے پی سیکولر ووٹ تقسیم کرتے ہوئے اپنے نشانہ کی تکمیل کیلئے ہر ممکن مساعی کررہی ہے اور سیکولر ذہن رکھنے والے افراد کو متاثر کرنے کی مہم پر ہے۔ بی جے پی نے ایک طرف آر ایس ایس اور دیگر تنظیموں کو گھر گھر مہم کے منصوبہ کے تحت متحرک کردیا ہے تو دوسری طرف بی آر ایس کے ناراض قائدین کو پارٹی میں شامل کرنے کوشاں ہے تاکہ بنیادی سطح پر کیڈر مضبوط ہوسکے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی تلنگانہ سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کی امیدوارہ مادھوی لتا کی تعریف میں سوشیل میڈیا پر بیان جاری کیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بی جے پی کو تلنگانہ میں ایسے ہندوتوا چہرے کی ضرورت ہے جو آنے والے دنوں میں پارٹی کو اقتدار تک پہنچا سکے۔ تلنگانہ بی جے پی میں بنڈی سنجے اور راجہ سنگھ کے علاوہ کوئی ہندوتوا چہرہ نہیں تھا لیکن حالیہ عرصہ میں یہ دونوں قائدین ہائی کمان سے دور ہوچکے ہیں جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ بنڈی سنجے پارٹی کے آپسی اختلافات کا شکار ہوگئے جبکہ راجہ سنگھ نے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے خود کو پارٹی کی سرگرمیوں سے دور کرلیا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ راجہ سنگھ تلنگانہ میں بی جے پی کے استحکام میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ قومی سطح پر اوما بھارتی اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی طرح تلنگانہ میں مادھوی لتا کو پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی بیاک گراؤنڈ کے بغیر ہی مادھوی لتا کو حیدرآباد لوک سبھا حلقہ سے امیدوار بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مادھوی لتا کو ہندوتوا چہرہ کے طور پر پیش کرنے کیلئے قومی نیوز چینلس کے پروگراموں میں شامل کیا جارہا ہے تاکہ ملک بھر میں ان کا امیج تیار ہو۔ پارٹی ذرائع کے مطابق سنگھ پریوار نے مادھوی لتا کے حق میں ہندو اکثریتی علاقوں میں گھر گھر پہنچ کر مہم کا آغاز کردیا ہے تاکہ گریٹر حیدرآباد میں نفرت کے ماحول کے ذریعہ دیگر اضلاع میں سیاسی فائدہ حاصل کرسکیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے مادھوی لتا کی ستائش اور مرکزی وزارت داخلہ کے وائی پلس سیکوریٹی فراہم کرنے کے فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی تلنگانہ میں مادھوی لتا کو ہندوتوا چہرے کے طور پر تیار کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی قائدین اور کیڈر کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے انتخابی نوٹیفکیشن کی اجرائی سے قبل گھر گھر پہنچ کر اپنی مہم کی تکمیل کرلیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مادھوی لتا اور ان کی ٹیم نے ہندو اکثریتی علاقوں میں ملاقاتوں کے ذریعہ خود کو امیدوار کے طور پر متعارف کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ بی جے پی کی نظر گریٹر حیدرآباد پر ہے تاکہ یہاں 26 میں کم از کم 10 اسمبلی حلقہ جات پر آئندہ چناؤ میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ تلنگانہ میں زعفرانی تنظیموں کی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کرتے ہوئے مندروں کو انتخابی مہم کے مراکز میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ مندروں کو آنے والے افراد کو پمفلٹس حوالے کئے جارہے ہیں جن میں تلنگانہ میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے غیر محفوظ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ مندروں میں پوسٹرس چسپاں کرتے ہوئے قسم دلائی جارہی ہے کہ مخالف ہندو پارٹیوں کی ہرگز تائید نہیں کی جائے گی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی موجودہ نفرت پر مبنی سرگرمیوں سے نمٹنے کیلئے اقلیتوں اور دیگر سیکولر طبقات کو متحدہ طور پر ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے صرف ایسے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا جائے جو کامیابی کے موقف میں ہیں۔ بی آر ایس کی موجودہ صورتحال سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ بی جے پی کو شکست دے پائے گی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ تلنگانہ میں اگر مسلمان اور دیگر سیکولر طبقات کانگریس کے حق میں متحدہ رائے دہی کرتے ہیں تو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔1