7کی ضرورت پر مجلس اور 10 چاہیئے تو بی جے پی،این ڈی اے سے دوستی کیلئے بائیں بازو سے دھوکہ،قدیم دوستوں نے کے سی آر کو بے نقاب کیا
حیدرآباد۔/23 اگسٹ، ( سیاست نیوز) بی آر ایس اور بی جے پی میں خفیہ مفاہمت کے بارے میں یوں تو کانگریس اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے اندیشوں کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر اور ان کے فرزند کے ٹی آر نے بارہا عوامی سطح پر اس بات کی تردید کی کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی اے یا بی ٹیم نہیں ہے۔ الزامات اور وضاحت پر بھلے ہی عوام کا ری ایکشن کیا ہو لیکن بائیں بازو کی جماعتوں نے اس تنازعہ کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے اظہار خیال کو باآسانی الزام تراشی کہہ کر ٹال دیا جاسکتا ہے لیکن برسوں تک دوست رہنے والی پارٹیوں کی جانب سے جب یہی بات دہرائی جائے تو پھر عوام بھی یقین کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ بی آر ایس اور بائیں بازو جماعتوں کے درمیان گذشتہ 9 برسوں کے دوران دوستانہ تعلقات رہے اور تین اسمبلی حلقہ جات کے ضمنی چناؤ میں سی پی آئی اور سی پی ایم نے غیر مشروط طور پر بی آر ایس کی تائید کی تھی۔ بائیں بازو جماعتوں کو امید تھی کہ اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس حلیف پارٹیوں کی طرح انہیں نشستیں الاٹ کرے گی لیکن کے سی آر نے اچانک 9 سال کے دوستوں کو دھوکہ دے دیا۔ سی پی آئی اور سی پی ایم یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ کے سی آر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے بی جے پی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ آزمودہ دوستوں کی جانب سے بی آر ایس اور بی جے پی کی دوستی کے بارے میں انکشاف پر عوام بھروسہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ کمیونسٹ پارٹیاں الزام تراشی کے معاملہ میں کافی محتاط رہتی ہیں۔ سی پی آئی اور سی پی ایم نے یہاں تک کہا کہ کے سی آر نے دوستی کے اصولوں کو فراموش کردیا ہے۔ کل کے دوست آج اچانک دشمن ہوگئے اور اس کے پس پردہ بی جے پی سے دوستی اہم وجہ دکھائی دے رہی ہے لہذا عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دال میں کچھ تو کالا ہے تبھی تو سی پی آئی اور سی پی ایم قیادت نے کے سی آر پر انگشت نمائی کی ہے۔ کے سی آر نے منگوڑ ضمنی چناؤ کے موقع پر بائیں باز کی تائید حاصل کی اور کہا تھا کہ نہ صرف اسمبلی بلکہ لوک سبھا انتخابات میں بائیں بازو جماعتیں حلیف کی طرح برقرار رہیں گی اور متحدہ طور پر مقابلہ کیا جائے گا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ کے سی آر نے تلنگانہ میں اپنی حکومت بچانے کیلئے بی جے پی کے ساتھ خفیہ مفاہمت کرلی ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو نہ صرف زائد نشستوں پر کامیابی میں مدد اور ضرورت پڑنے پر مرکزی حکومت کی تائید کی جاسکے۔ قومی سطح پر کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد INDIA سے مقابلہ میں بی جے پی کمزور دکھائی دے رہی ہے لہذا مرکز میں ضرورت پڑنے پر کے سی آر کی تائید حاصل کی جاسکتی ہے۔ تلنگانہ میں تشکیل حکومت کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ اگر بی آر ایس کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو تو اپنی حلیف مجلس کی 7 نشستوں یا پھر بی جے پی کی امکانی 10 نشستوں پر انحصار کرتے ہوئے تشکیل حکومت کو یقینی بنایا جائے گا۔ کے سی آر نے مجلس کی 7 نشستوں پر دوبارہ کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا پہلے ہی اشارہ دے دیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ بی جے پی کو 10 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگی۔ دونوں صورتوں میں بی آر ایس کیلئے مجموعی طور پر 17 ارکان تائید کیلئے دستیاب رہیں گے۔