ریاض فرضی انکاونٹر معاملہ ، مقتول کے افراد خاندان قومی انسانی حقوق کمیشن سے رجوع ، جامع تحقیقات کی خواہش
حیدرآباد۔7۔نومبر۔(سیاست نیوز) تلنگانہ میں جمہوریت کا قتل کیا جا رہاہے اور مظلوموں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جار ہی ہے اسی لئے تلنگانہ سے مظلوم افراد کو دہلی پہنچ کرشکایت کرنی پڑرہی ہے۔ ریاض فرضی انکاؤنٹرمعاملہ اور ان کے افراد خاندان کو اذیت رسانی کے معاملہ کی تحقیقات کے لئے قومی انسانی حقوق کمیشن میں شکایت درج کروانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ریاض کے افراد خاندان اور سماجی جہدکاروں نے یہ الزام عائد کئے اور کہا کہ اس معاملہ کی آزادانہ اور جامع تحقیقات کے لئے مداخلت ناگزیر ہے۔ نظام آباد میں ہوئے فرضی انکاؤنٹر معاملہ میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے شکایت موصول کرتے ہوئے مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن میں محترمہ زرینہ بیگم جو ریاض کی والدہ ہیں نے تحریری شکایت درج کروائی جس پر قومی انسانی حقوق کمیشن نے مقدمہ نمبر 132106/CR/2025 کا اندراج کرلیا ہے اور اس سلسلہ میں جلد ہی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ نظام آباد میں ریاض کے فرضی انکاؤنٹر کے خلاف شکایت کے لئے دہلی میں موجود ریاض کے اراکین خاندان کے ساتھ نظام آباد میں انکاؤنٹر سے قبل ریاض کے افراد خاندان بالخصوص والدہ ‘ اہلیہ اور بچوں کو دی گئی اذیت کے سلسلہ میں حقائق سے آگہی حاصل کرنے پہنچی ٹیم کے ذمہ داروں نے دہلی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں عوام پر ہونے والے مظالم کی کوئی سنوائی نہیں ہورہی ہے اسی لئے انہیں اس معاملہ کو دہلی لانا پڑا ہے۔محترمہ خالدہ پروین ‘ محترمہ سارہ میتھیوز ‘ جناب سمیر خان ایڈوکیٹ ‘ جناب ماجد شطاری ‘ کے علاوہ دیگر نے دہلی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندو ں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں ان مظلوموں کی فریاد پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا رہاہے بلکہ مقتول ریاض کے افراد خاندان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ وفد میں شامل اراکین نے کانسٹیبل پرمود کے قتل کی جامع اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کانسٹیبل کے قتل کو بنیاد بناتے ہوئے ریاض کا انکاؤنٹر میں قتل کیاگیا جبکہ پرمود کا قتل ہی مشتبہ ہے اسی لئے اس معاملہ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے اور اس بات کے شواہد جمع کرتے ہوئے عوام کے سامنے لائے جانے چاہئے کہ پرمود کا قتل کس نے کیا اور اس کی وجہ کیا تھی۔ محترمہ خالدہ پروین اور محترمہ سارہ میتھیوز نے اس معاملہ میں آزادانہ سی بی آئی تحقیقات یا عدالت کی نگرانی میں اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاض کا انکاؤنٹر میں قتل مشتبہ ہے اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اس پورے معاملہ میں کئی شبہات پائے جاتے ہیں اس کے برخلاف ریاض کی والدہ ‘ اہلیہ اور بچوں کو پولیس حراست میں دی گئی اذیتوں سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پولیس کی اذیت برداشت کرنے والے یہ افراد اپنی بپتا کے ساتھ کئی اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کرچکے ہیں لیکن تلنگانہ میں ان کی سنوائی کے لئے کوئی تیار نہیں ہے اور اب تک انہیں دی گئی اذیت کے معاملہ میں کوئی مقدمہ تک درج نہیں کیاگیا حالانکہ ریاض کی والدہ اور ان کی اہلیہ کے جسم کے مختلف حصوں پر اذیت کے نشان اب بھی موجود ہیں جو کہ پولیس حراست میں دی گئی تھی۔ انہو ںنے بتایا کہ پولیس میں انہیں جس طرح سے اذیت دی گئی ہے وہ انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی حرکت تھی کیونکہ ریاض کے بچوں کو الٹا لٹکانے کی کوشش کی گئی اور ان کے آنکھوں میں مرچ پاؤڈر ڈال کر تھپڑ رسید کئے گئے جبکہ ریاض کی والدہ اور ان کی اہلیہ کے کپڑوں میں مینڈک اور چھپکلی چھوڑتے ہوئے انہیں ہراساں کیا گیا اور ان کے ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان پین رکھتے ہوئے انہیں دبایا گیا ۔ اتنا ہی نہیں ان کے پیروں پر مرد پولیس والوں نے کھڑے ہوتے ہوئے ان کے پیروں کو چیرا گیا اور پوشیدہ مقامات پر مرچ پاؤڈر ڈالتے ہوئے اذیت دی گئی ۔3