تلنگانہ میں سہ رُخی مقابلہ، اقلیتوں کے ووٹ بینک کی اہمیت میں اضافہ

   

بی جے پی کو روکنے متحدہ رائے دہی ضروری، کے سی آر کی بس یاترا سے صورتحال تبدیل، کانگریس کو 8 نشستوں پر برتری
حیدرآباد۔/28 اپریل، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کیلئے 17 نشستوں میں پرچہ جات نامزدگی کے ادخال کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ انتخابی مہم کے حقیقی معنوں میں آغاز کے ساتھ ہی تلنگانہ میں انتخابی منظر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پرچہ نامزدگی کے مرحلہ سے قبل بیشتر نشستوں پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ دکھائی دے رہا تھا لیکن پرچہ نامزدگی کے مرحلہ کی تکمیل تک بی آر ایس بھی انتخابی میدان میں دکھائی دے رہی ہے۔ عام طور پر امیدواروں کے اعلان کے بعد ہی رائے دہندے اپنا فیصلہ کرتے ہیں لہذا تلنگانہ میں اصل مقابلہ کانگریس، بی جے پی اور بی آر ایس کے درمیان دکھائی دے رہا ہے۔ بعض ارکان اسمبلی اور سینئر قائدین کی کانگریس میں شمولیت کے بعد محسوس ہورہا تھا کہ بی آر ایس انتخابی میدان میں پیچھے رہ جائے گی لیکن تبدیل شدہ سیاسی حالات میں بی آر ایس نے دوبارہ بعض حلقوں میں اپنا موقف مستحکم کرلیا ہے اور دو رُخی مقابلہ کے بجائے سہ رُخی مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔ صدر بی آر ایس اور سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے روڈ شو اور بس یاترا نے بی آر ایس کو دوبارہ انتخابی میدان میں لا کھڑا کیا ہے۔ گذشتہ دنوں کانگریس، بی جے پی اور بی آر ایس نے جو سروے کیا تھا اس میں کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس پارٹی کے داخلی سروے میں چھ تا آٹھ نشستوں پر مضبوط موقف کی پیش قیاسی کی گئی جبکہ پارٹی 14 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کررہی ہے۔ بی جے پی جو گذشتہ دنوں تک تین تا چار نشستوں پر کامیابی کے بارے میں پُرامید تھی تازہ ترین سروے میں 6 نشستوں پر مضبوط موقف کا انکشاف ہوا ہے۔ بی آر ایس جس کے بارے میں محض دو نشستوں کی پیش قیاسی کی جارہی تھی وہ 6 لوک سبھا نشستوں پر مضبوط مقابلہ کے موقف میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی عادل آباد، کریم نگر، نظام آباد، ملکاجگری، سکندرآباد، محبوب نگر اور بھونگیر پر توجہ مرکوز کرچکی ہے اور پارٹی کو امید ہے کہ کم سے کم 6 نشستیں اسے حاصل ہوں گی اور گذشتہ کے مقابلہ دو نشستوں کا اضافہ ہوگا۔ بی آر ایس کو میدک، چیوڑلہ ، ورنگل، محبوب آباد، ظہیرآباد اور ناگر کرنول میں بہتر مظاہرہ کی امید ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ 13 مئی کو رائے دہی کے دن تک ریاست میں صورتحال مزید تبدیل ہوسکتی ہے اور رائے دہندے آخری لمحہ میں اپنے موقف کا فیصلہ کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کے سروے کے دوران رائے دہندوں کی جانب سے کھل کر اظہار خیال سے گریز کیا جارہا ہے اور رائے دہندوں کی خاموشی سیاسی پارٹیوں کے تجسس میں مزید اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔تازہ ترین صورتحال میں سیکولر اور اقلیت کے ووٹ مزید اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ سہ رُخی سخت مقابلہ کی صورت میں اگر اقلیتی ووٹ تقسیم ہوتے ہیں تو بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کی رائے دہی کم از کم 60 فیصد ہونی چاہیئے جبکہ گذشتہ لوک سبھا چناؤ میں اقلیتوں کی رائے دہی 35 تا 40 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اگر اقلیتی رائے دہندے 60 فیصد ووٹنگ کریں اور اس میں اگر 20 فیصد ووٹ بی آر ایس کو منتقل ہوتے ہیں تب بھی کانگریس پارٹی کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا اور40 فیصد مسلم ووٹ کی بنیاد پر بی جے پی کو کامیابی سے روکا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم رائے دہندوں میں شعور بیداری وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے تحت نہ صرف ووٹ فیصد میں اضافہ بلکہ متحدہ طور پر طاقتور امیدوار کے حق میں رائے دہی ناگزیر ہے۔1