تلنگانہ میں طلاق کے واقعات میں کمی خوش آئند

   

خلع کے واقعات میں معمولی اضافہ، وقف بورڈ کے اعداد و شمار میں انکشاف
حیدرآباد ۔ 12۔ فروری (سیاست نیوز) ملک بھر میں طلاق کے مسئلہ پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری مہم کے دوران تلنگانہ میں طلاق کے واقعات میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مخالف شریعت قانون سازی کیلئے جو بہانہ بنایا گیا تھا، وہ تلنگانہ میں غلط ثابت ہوا ہے۔ تلنگانہ وقف بورڈ کے قضاۃ سیکشن کو آن لائین کرکے دنیا کے کسی بھی حصہ سے شادی ، طلاق اور خلع کے سرٹیفکٹس آن لائین حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ قضاۃ سیکشن کی جانب سے گزشتہ تین برسوں میں جاری سرٹیفکٹس کی تعداد کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ریاست میں طلاق کے واقعات میں کمی ہوئی ہے جبکہ خلع کے واقعات میں اضافہ ہوا جس میں لڑکی کی جانب سے علحدگی اختیار کی جاتی ہے ۔ بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں طلاق کے 882 سرٹیفکٹس جاری کئے گئے جبکہ 2017 ء میں یہ تعداد 579 ہوگئی ۔ 2018 ء میں طلاق کے واقعات میں صرف 385 سرٹیفکٹس جاری کئے گئے ۔ برخلاف اس کے کہ خلع کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ 2016 ء میں 640 سرٹیفکٹس کی اجرائی عمل میں آئی جبکہ 2017 میں 688 اور 2018 میں 597 سرٹیفکٹس جاری کئے گئے ۔ وقف بورڈ کے مطابق شادیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے ۔ 2016 ء میں 36055 میاریج سرٹیفکٹس جاری کئے گئے جبکہ 2017 ء میں 36774 اور 2018 ء میں 39769 سرٹیفکٹس کی اجرائی عمل میں آئی۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تلنگانہ میں باقاعدہ شادیوں کی روایت برقرار ہے۔ وقف بورڈ نے خاندانی تنازعات اور خاص طور پر ازدواجی اختلافات کی یکسوئی کیلئے ماہرین پر مشتمل کونسلنگ سنٹر قائم کیا ہے جو ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا سنٹر ہے ۔ اس سنٹر میں ریٹائرڈ جج کے علاوہ ایک مفتی اور اسلامی امور و شریعت کی ماہر خاتون کے علاوہ ایک ایڈوکیٹ کو شامل کیا گیا جو ازدواجی اختلافات کی یکسوئی میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ کئی جوڑوں کو کونسلنگ سنٹر نے ٹوٹنے سے بچایا ہے۔ طلاق اور خلع کے واقعات میں کمی کیلئے مختلف مذہبی اداروں کی شرعی عدالتیں اور کونسلنگ سنٹرس ہیں جو شہر کے علاوہ مختلف اضلاع میں کام کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کے بعد دینی اور اخلاقی تعلیم کی کمی کے سبب خلع کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ دونوں جانب ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور خامیوں اور کوتاہیوں کو درگزر کا جذبہ کم ہوچکا ہے۔ اسکے باوجود مسلم ادارے باہمی اختلافات کو کم کرنے جو مساعی کر رہے ہیں اسکے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں۔