تلنگانہ میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش

,

   

ترشول کی تقسیم ، گجرات جیسے حالات پیدا کرنے ہندو تنظیمیں سرگرم

محمد مبشرالدین خرم

حیدرآباد۔21فروری۔تلنگانہ میں فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دینے اور ترشول کی تقسیم کے ذریعہ ریاست میں گجرات جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے! ریاست تلنگانہ میں حکومت بجرنگ دل اور ہندو توا تنظیموں کی سرگرمیوں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے! ریاست کے فرقہ وارانہ حساس تصور کئے جانے والے ضلع نظام آباد میں بجرنگ دل کے اجلاس میں ترشول کی تقسیم کی اجازت کے ذریعہ پولیس کیا پیغام دینا چاہتی ہے!ہندو توا قوتیں جنوبی ہند میں تلنگانہ کو اپنی تجربہ گاہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں! ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ کی اس طرح کے اجلاسوں پر اختیار کردہ خاموشی ان طاقتوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے جن قوتوں نے ملک میں منافرت پھیلاتے ہوئے عوام کو تقسیم کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہواہے۔ بجرنگ دل کے نظام آباد میں منعقد ہ اجلاس کے دوران 400 نوجوانوں میں ترشول کی تقسیم عمل میں لائی گئی اور یہ اسی طرز کے ترشول ہیں جو کہ گجرات فسادات میں بطور ہتھیار استعمال کئے گئے تھے۔ تلنگانہ میں ترشول کی تقسیم کی اس تقریب میں بجرنگ دل کارکنوں کو شہ نشین پر موجود قائدین حلف دلاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بجرنگ دل کا بنیادی مقصد خدمت‘ تحفظ اور تہذیب ہے اسی طرح ’’ترشول دکھشا‘‘ کی اس تقریب کے دوران موجود بجرنگ دل کارکنوں کو کہا گیا کہ ’’ اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں ہتھیاروں کے ساتھ تیار رہنا چاہئے ‘‘ نظام آباد ضلع میں منعقد ہونے والی اس تقریب کے دوران کارکنوں کو ہمہ وقت اپنے عقیدہ ‘ تہذیب اور ملک کی حفاظت کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا گیا ہے۔وشواہندو پریشد نے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی سے قبل سے اس پروگرام کو شروع کیا تھا اور مابعد گودھرا گجرات میں 6000سے زائد ترشول تقسیم کئے گئے تھے اور یہ سلسلہ ملک بھر کی کئی ریاستوں میں جاری رہا جبکہ ترشول کی تقسیم کو روکنے کے لئے متعدد فورم اور اداروں کی جانب سے اپیل کی گئی ۔ترشول کی تقسیم دراصل ہتھیار کی تقسیم کے مترادف ہے کیونکہ آرمس ایکٹ کے قوانین کے مطابق 10.5 سینٹی میٹر والے تیز دھاری بلیڈ ہتھیار میں شمار کی جاتی ہے اور جو ترشول تقسیم کئے جارہے ہیں وہ 13.5 سینٹی میٹر کے ہیں اور ان ترشول کی تقسیم کو فوری طور پر نہ روکے جانے کی صورت میں تلنگانہ میں حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں اور بجرنگ دل و وشواہندو پریشد کارکن ہتھیار بند نوجوانوں کی فوج بن کر ابھر سکتے ہیں۔تلنگانہ میں تبدیل ہونے والے سیاسی حالات کے دوران اگر اس طرح کی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور اکثریتی طبقہ کے نوجوانوں کو ہتھیار بند بنانے کے اقدامات کئے جاتے ہیںتو ایسی صورت میں فرقہ وارانہ منافرت میں اضافہ ہوگا ۔تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں اب تک آر ایس ایس اور ہندو توا تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی خاموش مہم کے بعد اب اچانک کھل کر ترشول کی تقسیم اور بجرنگ دل سے نوجوانوں کو وابستہ کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ کم عمر بچوں کو بھی اس تنظیم میں شامل کرتے ہوئے انہیں ترشول حوالہ کیا جانا ریاست کے حالات کو کشیدہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھے جانے چاہئے کیونکہ اس طرح کے پروگرامس کے انعقاد کے ذریعہ عوام میں نہ صرف خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ انہیں ہتھیار بند بنانے کے عملی اقدامات کے طور پر ان تقاریب کو دیکھا جانا چاہئے ۔