تلنگانہ کی دولت گجرات اور راجستھان منتقل کرنے کا الزام ، مہم کو جہد کاروں اور بی آر ایس قائد کی تائید ، انقلابی گلوکار کے گیت پر تنازعہ
حیدرآباد :17اگست ( سیاست نیوز) گزشتہ ہفتہ سکندرآباد کے علاقہ میں پیش آئے ایک واقعہ نے ریاست کے کئی علاقوں میں مارواڑی اور گجراتی تاجروں کیخلاف باقاعدہ مہم کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ تلنگانہ کی معیشت پر کنٹرول اور مقامی افراد کو روزگار کے مواقع سے محروم کرنے کی شکایت کے ساتھ ’مارواڑی گو بیاک‘ تحریک کا آغاز ہوچکا ہے اور 18 اگست کو آمنگل میں بند کی اپیل کی گئی ہے ۔ یہ تحریک بتدریج سیاسی تحریک کا رُخ اختیار کرنے لگی ہے اور علحدہ تلنگانہ تحریک سے وابستہ کئی قائدین نے اس تحریک کی تائید کا اعلان کیا ہے ۔ سکندرآباد میں گاڑی کی پارکنگ کے مسئلہ پر تنازعہ کے بعد مقامی مارواڑی تاجروں نے دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا تھا ۔ دلت تنظیموں نے اس واقعہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حیدرآباد اور ریاست کے دیگر اضلاع میں مارواڑی کمیونٹی کے بڑھتے تسلط کے خلاف باقاعدہ مہم چھیڑ دی ہے ۔ کئی جہدکاروں نے اس مہم کی تائید کی اور کہا کہ گجرات اور شمال کی دیگر ریاستوں سے آنے والے تاجروں نے اپنی غیرقانونی سرگرمیوں کے ذریعہ تلنگانہ کی معیشت کو لوٹنے کا کام کیا ہے ۔ شمالی ہند کے تاجرین اپنے کاروبار میں مقامی افراد کو روزگار فراہم کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ مہم نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب ایک مشہور گلوکار جی رمیش نے ’مارواڑی گوبیاک ‘ نعرہ کے تحت ایک انقلابی گیت لکھا ۔ یہ گیت جیسے ہی سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوا پولیس نے گلوکار کو کسی نوٹس کے بغیر حراست میں لیا پوچھ تاچھ کے بعد رہا کیا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ گلوکار رمیش کو نامپلی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں انہیں سائبرکرائم پولیس کے حوالے کیا گیا ۔ سماج میں نفرت پیدا کرنے کے الزام کے تحت پولیس نے رمیش کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے اپنا گیت ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کیا ۔ علحدہ تلنگانہ کی طرح شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیل تیزی سے عوام میں پھیل رہی ہے اور نظم و نسق کو صورتحال سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ مرکزی وزیر بنڈی سنجے کمار اور صدر پردیش کانگریس مہیش کمار گوڑ نے مہم کی مخالفت کی جب کہ بی آر ایس کے بعض قائدین بالواسطہ طور پر مہم کی تائید کررہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ مارواڑی اور گجراتی تاجروں نے تلنگانہ کی معیشت کو لوٹ لیاہے اور وہ مقامی سہولتوں سے استفادہ کرکے اپنی آمدنی کو دیگر ریاستوں کو منتقل کررہے ہیں ۔ گجراتی اور مارواڑی حوالہ کاروبار میں ملوث ہیں اور وہ تلنگانہ کی تہذیب پر حملہ آور ہیں ۔ تلنگانہ میں ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور تلگو عوام کو ہندی میں بات کرنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ مارواڑی گو بیاگ تحریک پر حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی اور غیر مقامی کے تنازعہ کو فوری کنٹرول کیا جاسکے ۔ کئی متفکر شہریوں نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا کہ ہندوؤں کے اعلیٰ اور کمزور طبقات کے درمیان یہ تنازعہ شدت اختیار کرسکتا ہے ۔ اسی دوران بی آر ایس لیڈر اور ایس سی کاروپوریشن سابق صدرنشین پی روی نے مارواڑی طبقہ کو سخت وارننگ دی ہے ۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پی روی نے کہا کہ تلنگانہ میں ایک بھی مارواڑی کو نئی دکان کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ علحدہ تلنگانہ کی طرح ’مارواڑی گوبیاک ‘ تحریک چلائی جائے گی ۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ مارواڑیوں کے تلنگانہ چھوڑنے تک جدوجہد جاری رہے گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ مارواڑی تاجر جی ایس ٹی ادا نہیں کرتے اور نہ ہی سامان کی خریدی پر بل دیتے ہیں ۔ یہاں بھاری کمائی کر کے گجرات اور راجستھان منتقل کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مارواڑیوں کے چندے سے بی جے پی چل رہی ہے ، اسی لئے بنڈی سنجے نے اُن کی تائید کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آمنگل میں بند کے ذریعہ تحریک کو تیز کیا جائے گا ۔ انہوں نے سیاسی پارٹیوں سے 18 اگست کو رنگاریڈی ضلع کے آمنگل بند کی تائید کی اپیل کی ۔ 1