تلنگانہ میں مسلم رائے دہندے سیاسی اعتبار سے غیر اہم!

   

سیاسی جماعتوں کی مسلم مسائل سے غفلت، قائدین کا مسلم امورپر بات چیت سے گریز

حیدرآباد۔21فروری(سیاست نیوز) تلنگانہ میں مسلم رائے دہندے سیاسی اعتبار سے غیر اہم ہوچکے ہیں! ریاست میں مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہونے لگ جائے گا کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو مسلمانوں کے مسائل کی نہ پرواہ ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین مسلمانوں کے امور پر بات کرنے کے حق میں ہیں کیونکہ انہیں اب سیکولر ازم سے زیادہ فرقہ واریت میں اپنے مفادات نظر آنے لگے ہیں۔ ریاست میں سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی مقابلہ کے بجائے آئندہ انتخابات کے دوران مذہبی نظریات کے درمیان مقابلہ کے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کیونکہ ریاست میں برسراقتدار بھارت راشٹر سمیتی ہویا کانگریس دونوں ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں کو قریب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور وہ مذہبی نعروں کے ذریعہ ان لوگوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مذہبی بہاؤ میں سیاسی حمایت و تائید کرنے لگتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے ہی ’’ جئے شری رام‘‘ اور ’’جئے بجرنگ بلی‘‘ کے نعروں کا سہارا لیتی آئی ہے لیکن اب بی آر ایس اور کانگریس بھی ان نعروں کے سہارے عوام کے درمیان پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تلنگانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی تیزی سے استحکام حاصل کرنے لگی ہے اور اسی لئے بھارت راشٹر سمیتی اور کانگریس نے بھی بی جے پی کو اسی انداز میں جواب دینے کے لئے ہندو ووٹ کو اپنی جانب راغب کرنا شروع کردیا ہے اور ایسے میں تمام سیاسی جماعتیں بالخصوص کانگریس اور بی آر ایس جن پر مسلم نواز سیاسی جماعت ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے وہ اب ہندو نواز سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں اور انہیں ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے مسائل اور ان کے حل کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔ چیف منسٹر تلنگانہ و سربراہ بھارت راشٹر سمیتی چندر شیکھر راؤ نے ہندو طبقہ کو راغب کرنے کے لئے گذشتہ 8برسوں کے دوران کئی مندروں کو امداد اور ان کی از سرنو تعمیر و مرمت کے علاوہ توسیعی کام انجام دیئے ہیں اور گذشتہ دنوں انہو ںنے کنڈہ گٹو مندر کے لئے 1000کروڑ کے خصوصی فنڈ کا اعلان کیا ہے ۔ ان کے اس اعلان کے جواب میں صدرپردیش کانگریس مسٹر کے ریونت ریڈی نے اپنی ہاتھ سے ہاتھ جوڑو یاترا کے دوران تلنگانہ میں اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں 100 رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی انہو ںنے ریاست کے تمام حلقہ جات اسمبلی میں شیواجی کا مجسمہ نصب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں سیاسی جماعتیں اس بات کو فراموش کرتی جا رہی ہیں کہ ریاست میں مسلم رائے دہندے بھی موجود ہیں لیکن اب ان مسلم رائے دہندوں کی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اہمیت باقی نہیں رہی بلکہ ان سیاسی جماعتوں نے مسلم رائے دہندوں کے مسائل پر گفتگو کرنا بھی بند کردیا ہے اور ان کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ تاثر دینے لگے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے مسائل کے حل کے سلسلہ میں وہ بات کرتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں سے محروم ہونا پڑے گا اسی لئے وہ ان کے مسائل کے متعلق بات کرنے سے بھی خوفزدہ ہونے لگے ہیں۔مسلم رائے دہندوں کے لئے ریاست تلنگانہ کے آئندہ انتخابات سخت آزمائش اور امتحان کی گھڑی ہیں کیونکہ ریاست میں تمام سیاسی جماعتیں انہیں خفیہ فوائد اور ظاہری طور پر نظرانداز کرنے کے لالی پاپ کی تیاری کرچکی ہیں اور بی جے پی سے مقابلہ کے نام پر مسلم رائے دہندوں کی وقعت کو گھٹایا جانے لگا ہے ۔ بی آر ایس اور کانگریس کی جانب سے مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی ریاست میں مسلمانوں کے وجود پر سوالیہ نشان کے مترادف ہے کیونکہ اگر دونوں ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دوسری بڑی اکثریت کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی و منصوبہ بندی اختیار کی جاتی ہے اور ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اقتدار حاصل ہووہ یہ کہیں گے کہ انہیں مسلم ووٹ کے بغیر اقتدار حاصل ہوا ہے اسی لئے مسلمانوں کو منظم حکمت عملی و منصوبہ بندی کے ساتھ آئندہ انتخابات میں متحدہ طور پر اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔م