تلنگانہ میں کانگریس سے مقابلہ کیلئے بی آر ایس اور بی جے پی کی مشترکہ حکمت عملی

   

ایک دوسرے کے خلاف نرم رویہ، کانگریس اصل نشانہ ، بی جے پی داخلی اختلافات سے کمزور
حیدرآباد ۔3۔ جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ بی جے پی میں داخلی اختلافات نے ریاست میں پارٹی کے موقف کو کمزور کردیا ہے ۔ بی آر ایس اور بی جے پی موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ طئے کرنے سے قاصر ہیں کہ کانگریس پارٹی سے کس طرح نمٹا جائے ۔ دونوں پارٹیوں کے لئے کانگریس مشترکہ دشمن کی طرح ہے ، لہذا بی جے پی اور بی آر ایس نے اپنے اپنے طور پر کانگریس سے مقابلہ کی تیاری شروع کردی ہے ۔ حکمت عملی کے تحت بی آر ایس کا اصل نشانہ کانگریس رہے گی جبکہ بی جے پی نے بی آر ایس کے ساتھ نرم موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں صورتوں میں اصل مقابلہ کانگریس سے رہے گا اور سہ رخی مقابلہ کے بجائے بی جے پی اور بی آر ایس کا کانگریس سے راست مقابلہ ہوگا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کرناٹک چناؤ کے بعد تلنگانہ میں کانگریس کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ بی جے پی کو کرناٹک میں اس قدر بری شکست کی امید نہیں تھی لیکن کانگریس ہائی کمان نے پارٹی قائدین میں اتحاد اور عوامی مسائل پر جو حکمت عملی ا ختیار کی اس کا بھر پور فائدہ ہوا ۔ کرناٹک الیکشن سے قبل تک تلنگانہ میں بی جے پی اقتدار کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن کرناٹک کی شکست کے بعد پارٹی میں ناراض سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا اور ریاستی قیادت کے خلاف ہائی کمان سے نمائندگی کی گئی ہے۔ پارٹی کے کئی ایسے قائدین جو کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے، وہ موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے گھر واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ کے سی آر نے تلنگانہ میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک جبکہ نریندر مودی مرکز میں تیسری مرتبہ کامیابی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے دونوں پارٹیوں نے سیاسی طور پر ایک دوسرے کی مدد کا فیصلہ کیا ہے ۔ دونوں پارٹیاں بظاہر ایک دوسرے پر تنقید کر رہی ہیں لیکن قیادتوں کی سطح پر اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ دونوں مشترکہ طور پر کانگریس کا مقابلہ کریں گے۔ کانگریس نے اپوزیشن اتحاد کے اجلاسوں میں بی آر ایس کی شمولیت کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ کے سی آر قومی سطح پر بی جے پی کی بی ٹیم کا رول ادا کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد میں عدم شمولیت پر مایوس کے سی آر نے بی جے پی سے خفیہ مفاہمت کو ترجیح دی تاکہ ریاستی اور قومی سطح پر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہو۔ انتخابات کے نوٹیفکیشن کی اجرائی تک دونوں پارٹیاں بظاہر ایک دوسرے کی کٹر حریف ظاہر کرنے کی کوشش کریں گی جبکہ الیکشن میں درپردہ خفیہ حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ بی جے پی نے ایک طرف بی آر اے کے بارے میں نرم موقف اختیار کیا ہے تو جوابی خیر سگالی کے طور پر بی آر ایس نے کانگریس کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ الغرض دونوں ہم خیال پارٹیاں کانگریس کی بڑھتی مقبولیت سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔ داخلی اختلافات اور ناراض سرگرمیاں جو عام طور پر کانگریس پارٹی میں دیکھی جاتی رہیں ، اب وہ بی جے پی اور بی آر ایس میں داخل ہوچکی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس پار ٹی بی جے پی اور بی آر ایس کی مشترکہ حکمت عملی کا مقابلہ کس طرح کرے گی۔ قومی قائدین بالخصوص راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے دوروں کے ذریعہ مختلف طبقات کیلئے انتخابی وعدوں کے اعلانات کئے جائیں گے۔ کانگریس کا انتخابی منشور 17 ستمبر کو جاری کیا جائے گا اور توقع ہے کہ سونیا گاندھی اور ملکارجن کھرگے کی موجودگی میں منشور جاری کیا جائے گا۔ ر