وزراء اور عوامی نمائندوں میں اختلافات، قیادت کا کنٹرول ختم، ڈسپلن پارٹی بکھر رہی ہے
حیدرآباد۔/12 جولائی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں اقتدار کے 9 سال کی تکمیل پر بی آر ایس میں گروپ بندیاں اور داخلی اختلافات چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کیلئے دردِ سر بن چکے ہیں۔ بی آر ایس جس کا آغاز ٹی آر ایس کے نام سے ہوا، اور اسے ایک پابند ڈسپلن پارٹی کہا جارہا تھا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا 2001 سے پارٹی پر مکمل کنٹرول رہا اور کسی بھی معاملہ میں ان کا فیصلہ قطعی سمجھا جاتا تھا۔ کے سی آر نے عوامی نمائندوں اور پارٹی قائدین کو بلاتفریق ایک فاصلہ پر رکھا اور ہر کسی پر ان کا خوف و دبدبہ صاف دکھائی دیتا تھا۔ کے سی آر نے گذشتہ 9 برسوں میں خود کو نہ صرف قائدین بلکہ عوام سے بھی دور رکھا تھا۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات قریب آچکے ہیں پارٹی قائدین اور عوام دونوں سطح پر چیف منسٹر کے رویہ پر ناراضگی دکھائی دے رہی ہے۔ بی آر ایس جو کبھی پابند ڈسپلن پارٹی تھی آج وہ کئی گروپس میں تقسیم ہوچکی ہے اور قائدین پر قیادت کا خوف اور کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ کے سی آر اور کے ٹی آر نے قائدین کے داخلی اختلافات ختم کرنے کی باقاعدہ مساعی کی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناراض قائدین اپنے غیر یقینی سیاسی مستقبل کے سبب قیادت کے کنٹرول سے باہر ہوچکے ہیں۔ ریاست کے 33 اضلاع میں تقریباً 15 اضلاع ایسے ہیں جہاں بی آر ایس گروہ بندیوں کا شکار ہوچکی ہے جس کی اہم وجہ اسمبلی انتخابات کا ٹکٹ ہے۔ ضلع سے تعلق رکھنے والے وزراء اور ارکان اسمبلی و کونسل میں کوئی تال میل نہیں جس کا راست اثر تنظیمی سطح پر دکھائی دے رہا ہے۔ کئی اضلاع میں ضلع بی آر ایس صدور خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں کیونکہ کسی بھی معاملہ میں وزراء اور عوامی نمائندے ان سے مشاورت تک نہیں کرتے۔ سرکاری اسکیمات پر عمل آوری میں پارٹی قائدین کا کوئی رول نہیں ہے اور اسکیمات کے استفادہ کنندگان کے انتخاب کی ذمہ داری ریاستی وزراء اور ارکان اسمبلی و کونسل کو دی گئی ہے۔ پارٹی میں ناراضگیوں کا اندازہ خود چیف منسٹر کے سی آر اور بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ کو ضلع سطح کے اجلاسوں میں شرکت کے وقت ہوا۔ گذشتہ 9 برسوں سے پارٹی کا پرچم اٹھائے ہوئے قائدین اور کارکن کسی بھی سرکاری عہدہ سے محروم رہے۔ ضلع کانگریس صدور کو امید تھی کہ انہیں اسکیمات میں اہم رول دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کونسل کی نشستوں اور مختلف کارپوریشنوں کے صدورنشین کے انتخاب میں بھی کئی سینئر قائدین کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ عوامی نمائندے میڈیا میں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے کرپشن کو بے نقاب کیا جارہا ہے۔ گذشتہ دنوں ورنگل میں کے سری ہری اور ڈاکٹر راجیا کے درمیان اختلافات تلنگانہ بھون تک پہنچ گئے۔ رکن اسمبلی اور رکن کونسل کو سمجھانے کیلئے کے ٹی آر کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ کے ٹی آر نے ڈاکٹر راجیا کو تلنگانہ بھون طلب کیا اور سری ہری کے خلاف بیان بازی نہ کرنے کی ہدایت دی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر راجیا سے ملاقات کرنے سے کے سی آر نے انکار کردیا جس کے نتیجہ میں دلت طبقات میں ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔ اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ کے مسئلہ پر دونوں قائدین کھل کر بیان بازی کررہے ہیں۔ بی آر ایس کے کئی ارکان اسمبلی اپنے فرزند یا دختر کو ٹکٹ دلانے کیلئے کانگریس پارٹی سے ربط میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ورنگل کے علاوہ محبوب نگر، نلگنڈہ، سوریا پیٹ، کھمم ، رنگاریڈی، نظام آباد، عادل آباد اور نرمل میں بی آر ایس کے داخلی اختلافات کا اثر آئندہ اسمبلی انتخابات پر پڑے گا۔ دوسری طرف اختلافات اور گروہ بندیوں کیلئے مشہور کانگریس پارٹی کو ہائی کمان نے متحد کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ریونت ریڈی کو صدر پردیش کانگریس مقرر کئے جانے کے بعد قدیم اور سینئر قائدین نے عملاً بغاوت کردی تھی لیکن ہائی کمان کے سخت رویہ کے نتیجہ میں تلنگانہ قائدین متحدہ طور پر کام کرنے کیلئے راضی ہوچکے ہیں۔ پارٹی کو برسراقتدار لانا ہر کسی کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی خصوصی دلچسپی کے نتیجہ میں پارٹی کیڈر کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور ہر کسی کو امید ہے کہ تلنگانہ میں آئندہ اقتدار کانگریس کا رہے گا۔ بی آر ایس کے داخلی اختلافات کے نتیجہ میں کئی ناراض قائدین کانگریس میں اپنا سیاسی مستقبل تلاش کررہے ہیں۔ر